سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) زمین کو پاک کرنے کا طریقہ

  • 20296
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1582

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر زمین نجاست آلود ہو تو اسے کس طرح پاک کیا جاتا ہے، کیازمین کا اتنا حصہ کھودنا ضروری ہے، جہاں نجاست ہو، وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو پاک قرار دیا ہے بلکہ ایک حدیث میں اسے مسجد بھی کہا گیا ہے اگر کسی جگہ پر نجاست پڑی ہو تو نجاست آلود ہونے کی بناء پر وہ جگہ ناپاک ہے اور اس جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے۔ احادیث میں اس کے دو طریقے بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

اس پر پانی بہا دیا جائے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کر دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر پانی کا ڈول بہا دیا۔[1]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محض پانی بہا دینے سے زمین پاک ہو جاتی ہے اسے کھودنے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اگر زمین سخت ہو تو وہاں پانی بہا دیا جائے اور اگر نرم ہو تو نجاست کی جگہ کو کھودنا ضروری ہے، لیکن یہ محض تکلف ہے۔ جن احادیث میں زمین کھودنے کا ذکر ہے وہ سخت ضعیف ہیں، جیسا کہ ماہرین حدیث نے اس کی صراحت کی ہے۔ [2]

نجاست آلود زمین کے پاک ہونے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ خطہ سورج یا ہوا کی وجہ سے خشک ہو جائے حتیٰ کہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے، اس طرح بھی زمین پاک ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وہ مسجد میں ہی رات گزارتے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ کتے مسجد میں آتے اور پیشاب کر جاتے تھے لیکن صحابہ کرام وہاں کچھ چھینٹے وغیرہ نہیں مارتے تھے۔ [3]

امام ابو داود نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ زمین خشک ہونے سے پاک ہو جاتی ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ زمین خشک ہونے سے پاک ہو جاتی ہے کیونکہ اگر زمین خشک ہو جانے سے پاک نہ ہوتی تو صحابہ کرام اسے یونہی نہ چھوڑتے۔[4]

بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق زمین کو پاک کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہاں پانی بہا دیا جائے لیکن اگر پانی نہ بہایا جائے اور زمین خشک ہو جائے اور نجاست کے اثرات بھی ختم ہو جائیں تو وہ زمین پاک ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت موجود ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري ، الوضو : ۲۲۱۔

[2] نصب الرایة ص ۲۱۲ج۱۔

[3] سنن أبي داؤد ، الطھارة: ۳۸۲۔

[4] فتح الباري ص ۲۷۹ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:69

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ