سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) مریض کی طہارت

  • 20273
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 716

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی بیمار ہو اور طہارت حاصل کرنے سے معذور ہو تو کیا وہ حصول طہارت کے لئے نماز کو مؤخر کر دے یا اسی حالت میں نماز بروقت پڑھ لے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مریض کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ طہارت سے معذوری کی وجہ سے نماز کو وقت سے مؤخر کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اپنی نیت کے مطابق جس قدر طہارت حاصل کر سکتا ہے، اسے پورا کر کے نماز بر وقت ادا کرے خواہ اس کے بدن، کپڑے یا جگہ پر نجاست لگی ہو جسے وہ دور نہیں کر سکتا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو، اس کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ ‘‘[1]

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جہاں میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کی بجا آوری کرو۔ ‘‘[2]

اس بنیادی قاعدہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں سے ان کے عذر کے مطابق عبادات میں تخفیف کر دی ہے تاکہ وہ حرج اور مشقت میں پڑے بغیر اللہ کی عبادت کو بجا لائیں، اس سلسلہ میں کچھ شرعی ہدایات حسب ذیل ہیں:

1  مریض کے لئے ضروری ہے کہ وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرے خواہ وہ وضو کی صورت میں ہو یا غسل کرنے کی صورت میں، اگر پانی سے طہارت حاصل کرنے سے عاجز ہو یا پانی کے استعمال سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کرے، اگر وہ وضو یا تیمم نہ کر سکتا ہو تو کوئی بھی دوسرا شخص اسے وضو یا تیمم کرا سکتا ہے۔

2 اگر کسی جگہ زخم ہو تو وہاں مسح بھی کیا جا سکتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ مریض اپنے ہاتھ کو پانی سے تر کرے اورا س گیلے ہاتھ کو زخم پر پھیر دے اگر ایسا کرنا نقصان دہ ہو تو اس زخم پر بھی تیمم کرے، اگر زخم پر پٹی بندھی ہے تو اسے دھونے کے بجائے پانی کے ساتھ مسح کر لیا جائے وہاں تیمم کی ضرورت نہیں کیونکہ عضو کو دھونے کے بجائے وہاں مسح کیا جا سکتا ہے۔


[1] التغابن : ۱۶۔

[2] صحیح البخاري، الاعتصام : ۷۲۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:52

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ