سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(566) بریرہ نام رکھنا؟

  • 20215
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 5106

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے دوست کے ہاں بچی پیدا ہوئی تو میں نے اس کا نام بریرہ تجویز کیا، میرے دوست نے کہا کہ بریرہ نامی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ کہا نہیں مانا تھا، اس لیے مجھے یہ نام پسند نہیں ہے، اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے، کیا اس وجہ سے یہ نام نہیں رکھنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ ایک قابل قدر صحابیہ ہیں، رسول اللہ کا اس پر بڑا اعتماد تھا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ جب وہ لونڈی تھیں تو مغیث رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی سے نکاح کر دیا گیا جو کسی کے غلام تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے خرید کر آزاد کر دیا تو اسے اپنے خاوند کی زوجیت میں رہنے کا اختیار دیا گیا چونکہ وہ آزاد ہو چکی تھیں، اس لیے انہوں نے ایک غلام کی زوجیت میں رہنا پسند نہ کیا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میرا خاوند مجھے اتنی رقم بھی دے تب بھی میں اس کے ہاں رہنے کو تیار نہیں ہوں۔[1]

 دوسری طرف مغیث رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی، وہ مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں اپنی بیوی کے فراق سے روتے اور آنسو بہاتے رہتے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے اسے دیکھا کہ وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے روتا رہتا اور روتے روتے اس کی داڑھی تر ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی اس سے نفرت باعث تعجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر کہا کہ تم اسے اختیار کر لو اور اپنے مؤقف سے رجوع کر لو، حصرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے تو مجھے بسر وچشم قبول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حکم نہیں بلکہ میں اس کی صرف سفارش کرتا ہوں، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اگر آپ کا صرف مشورہ ہے حکم نہیں ہے تو مجھے اس مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ [2]

 واقعہ کی حقیقت تو اس قدر ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی نفرت یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کہ اس نے میرا مشورہ یا سفارش نہیں مانی ہے، لہٰذا مجھے اس سے نفرت ہے، احادیث میں اس قسم کی بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا، بلکہ اس پاکباز عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگی تو آپ کا پورا پورا دفاع کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زبردست دباؤ کے باوجود انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و پاکدامنی کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا، ایسے حالات میں کسی مسلمان کو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ یا ان کے نام سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امر کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملنے والے اختیارات کو استعمال کیا ہے او ریہ ان کا ایک حق تھا۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۸۵۸۔

[2]  صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۸۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:471

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ