سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(530) بچے کا کھیت کو آگ لگانا

  • 20179
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 921

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بچے نے دن کے وقت گندم کے کھلیان کو آگ لگا دی۔ اس کے آگ لگانے میں کسی کے مشورے کو دخل نہیں اس سے کافی نقصان ہوا ہے، کیا اس نقصان کی تلافی بچے کے ورثاء کو کرنا ہو گی یا نہیں؟ نقصان ادا کرنے کی صورت میں پورے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے یا کچھ نقصان ادا کرنا ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں بعض افراد کو حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مرفوع القلم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ دیوانہ ہوش آنے تک، بچہ بالغ ہونے تک اور سونے والا بیدار ہونے تک مرفوع القلم ہیں [1]محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچہ مؤاخذہ کے لحاظ سے مرفوع القلم ہے اگر نیکی اور ثواب کے کام کرتا ہے تو اسے محروم نہیں کیا جائے گا البتہ جو حقوق انسانوں سے متعلق ہیں اس کا معاملہ کچھ الگ ہے اگرچہ بچے کو باز پرس نہیں ہو گی۔ تاہم اس کے ورثاء نقصان کے ذمہ دار ہوں گے چنانچہ فقہا نے صراحت کی ہے کہ بچہ میں اہلیت ادا معدوم معلوم ہوتی ہے، اس لیے اس کے اقوال و افعال پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں ہو گا او رنہ ہی معاملات میں اس کے تصرفات کا اعتبار کیا جائے گا، زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ بچہ جب کسی کا نقصان کرے گا تو مالی لحاظ سے وہ قابل مواخذہ ہے البتہ بدنی لحاظ سے اسے سزا وغیرہ نہیں دی جائے گی مثلاً بچہ کسی کو قتل کر دیتا ہے یا کسی کے مال کو نقصان پہنچاتا ہے تو مقتول کی دیت اور مال کی تلافی بہر صورت کرنا ہو گی لیکن اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ [2]

 اس طرح بچے کے مال میں زکوٰۃ بھی عائد ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کرام نے لکھا ہے، اس بنا پر صورت مسؤلہ میں جو نقصان ہوا ہے وہ بچے کے ورثاء ادا کریں گے اور شرعی طور پر یہ ان کی ذمہ داری ہے، بچے کے مرفوع القلم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر کوئی اور ذمہ داری عائد ہو گی البتہ مالی نقصانات کی تلافی اس کے ورثاء پر عائد ہوتی ہے، وہ بھی پورا پورا نقصان ادا کرنا ہو گا۔ (واللہ اعلم)


[1] مسند امام احمد،ص: ۱۴۴،ج۶۔ 

[2]  علم اصول الفقہ،ص: ۱۳۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:444

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ