سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(497) ایک طلاق دینے کے بعد دوسری دو طلاقیں اکٹھی دینا

  • 1955
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1895

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا عزیز عرصہ ۲۰ سال سے بیرون ملک مقیم  ہے اور ہر دوسرے سال وہ پاکستان آتا تھا۔ مگر پچھلے دو تین سال سے میاں بیوی میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہو گئے۔ مرد کو عورت پر شک تھا کہ عورت نے کسی دوسرے سے ناجائز تعلقات قائم کر لیے ہیں جب وہ تقریباً دو سال پہلے پاکستان آیا تو اس نے عورت کو وارننگ دی کہ تم ٹھیک ہو جائو ۔ کیونکہ ہمارے بچے جوان ہو رہے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعداد پانچ ہے۔ اور عمریں بالترتیب ۱۸،۱۶،۱۴،۱۰،۷ سال ہیں مگر وہ بضد رہی ۔ لہٰذا اس نے تقریباً ۹ ماہ قبل اسے ایک عدد طلاق بذریعہ تحریری خط ارسال کی لیکن وہ ۹ ماہ سے پھر بھی کوشش کرتا رہا کہ اسے سمجھ آ جائے اور اس واسطے اس نے لڑکی کے والدین اور بھائیوں سے بھی رابطہ رکھا کہ اسے سمجھایا جائے ۔ لیکن وہ عورت نہیں مانی۔ پھر اس نے ۹ ماہ بعد اس عورت کو دو عدد اکٹھی طلاق بذریعہ تحریری خط ارسال کر دی ہیں ۔ اگر پھر بھی مرد اس کو رکھنا چاہے تو کیا کرے ۔ اس مرد نے جو طلاقیں بھیجی ہیں ان کی اسلام میں کیا حیثیت ہے۔ اگر میاں بیوی رجوع یا تجدید نکاح سے پھر ایک ہو سکتے ہیں ۔ تو کیا کیا جائے ۔ کیا مرد کے اس عمل سے تمام طلاقیں ہو گئی ہیں ۔ دوسری طلاق کو بھیجے تقریباً ایک ماہ گزر چکا ہے ۔ مہربانی فرما کر قرآن وحدیث کی روشنی میں آگاہ کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نو ماہ قبل دی ہوئی ایک عدد طلاق واقع ہو چکی ہے اس طلاق کے نو ماہ بعد اکٹھی دی ہوئی دو طلاقیں اگر عدت  کے اندر بغیر رجوع کیے دی گئی ہیں تو اہل علم کے دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ ایک طلاق واقع ہو گئی ہے  تو یہ دوسری طلاق ہو گی کیونکہ ایک پہلے واقع ہو چکی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں طلاقیں کالعدم ہیں کیونکہ اس قول میں عدت کے اندر رجوع کیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی تو اس قول کے مطابق نو ماہ قبل دی ہوئی ایک ہی طلاق ہے اس لیے دونوں قولوں کے مطابق خاوند اکٹھی دو طلاقیں دینے کے وقت سے لے کر عدت کے اندر گواہوں کے روبرو رجوع کر سکتا ہے اور عدت گذر جانے کے بعد تجدید نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر اکٹھی دو طلاق دینے کے وقت نو ماہ قبل دی ہوئی طلاق کی عدت ختم ہو چکی تھی تو یہ دونوں اکٹھی دی ہوئی طلاقیں کالعدم ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ پہلی طلاق کی عدت ختم ہونے پر نکاح ٹوٹ چکا تھا اور نکاح ٹوٹ جانے کے بعد یا نکاح منعقد ہونے سے قبل طلاق کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں تو اس صورت میں طلاق صرف ایک واقع ہوئی ہے عدت چونکہ ختم ہو چکی ہے اس لیے اب خاوند تجدید نکاح کر سکتا ہے واللہ اعلم  تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرما دیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

طلاق کے مسائل ج1ص 342

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ