سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(547) بیوی کا اپنے شرابی خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرنے کا حکم

  • 19395
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1015

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی ایک آسودہ حال مالدار شخص سے ہوئی ہے جو بہت سی صفات جمیلہ کا مالک ہے بس اس میں ایک عیب ہے کہ وہ شراب پیتا ہے پس اس بنا پر میں نے بعض لوگوں سے پوچھا تو انھوں نے کہا: اپنے خاوند کو چھوڑدو۔مجھ کو یہ کام خاصامشکل محسوس ہوا اس لیے کہ میں پانچ بیٹیوں اور ایک جوان بیٹے کی ماں ہوں اس پر مزید یہ کہ میری کوئی پناہ گاہ اور کوئی میری کفالت کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ پھر میرے خاوند کے سوا کوئی نہیں اور میرا کوئی اور گھر یا باپ اور بھائی نہیں جن کے پاس میں پناہ لوں ۔ میں نے اپنے شوہر کو بستر پر تنہا چھوڑدیا ہے اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف ہدایت پا جائے اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں لیکن اس نے شارب ترک نہیں کی پھر یہ کہ وہ میرا خالہ زاد بھائی بھی ہے مالدار ہے فقیروں سے محبت کرتا ہے اور ان سے نرمی کرتا ہے اور محتاجوں کی مدد کرتا ہے اور واجب حق کی ادائیگی کرتا ہے اس کے علاوہ بھی اس کے اندر اچھی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ جواب تم دونوں میاں بیوی کے لیے ہے۔

جہاں تک تمھارے خاوند کا تعلق ہے پس بے شک میں اس  کی طرف نصیحت کا رخ موڑ کر اس کو کہتا ہوں کہ وہ اللہ عزوجل کی جناب میں شراب نوشی سے توبہ کرے کیونکہ شراب کتاب اللہ سنت رسول اور مسلمانوں کے اجماع کی روسے حرام ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠ إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَد‌ٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلو‌ٰةِ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١ وَأَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَاحذَروا فَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّما عَلىٰ رَسولِنَا البَلـٰغُ المُبينُ ﴿٩٢﴾... سورةالمائدة

"اے لوگوجو ایمان لائے ہو!بات یہی ہے کہ شراب اور جو اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیرسراسرگندے ہیں،شیطان کے کام سے ہیں سو اس سے بچوتا کہ تم فلاح پاؤ ۔شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے تو کیا باز آنے والے ہو؟اور اللہ کا حکم مانو اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا حکم مانو اور بچ جاؤ پھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لوکہ ہمارے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ذمے تو صرف واضح طور پر پہنچادینا ہے۔"

اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   سے یہ فرمان ثابت ہے۔

"كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ , وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ" [1]

"ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔"

اور مسلمانوں کا شراب کی حرمت پر قطعی اجماع ہے اس کی حرمت میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے حتیٰ کہ اہل علم نے حرمت شراب کو دین اسلام کے معلوم ضروری  امور میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے جس شخص نے حرمت شراب کا انکار کیا اور لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا رہا پس وہ کافرہوگا اور اس سے توبہ کرائی جائے گی اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کیا جائے گا۔

لہٰذا اے میرے بھائی! میں تم کو بارہا نصیحت کرتا ہوکہ تم شراب پینا چھوڑدواور پاکیزہ مشروبات کے ذریعے جن کو اللہ نے حلال کیا ہے ان مشروبات سے مستغنی ہو جاؤ جن کواللہ نے حرام کہاہے۔شراب ام الخبائث یعنی ہر برائی کی جڑ اور ہر شر کی چابی ہے مگر اس کو چھوڑنا اس شخص کے لیے نہایت آسان ہے جس کو اللہ نے ہدایت دے دی توفیق عطا کردی نیت اور اردے میں سجا کر دیا اور جس نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے مدد طلب کی۔

رہا تمھارا مسئلہ تو تمھارا اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنا حرام اور ممنوع نہیں ہے کیونکہ شراب پینا اس کے کفر کو مستلزم نہیں ہے لیکن تم پر لازم ہے کہ اس کو کثرت سے نصیحت کرتی رہو۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کو نصیحت سے فائدہ پہنچائے۔

رہا تمھارا اس کو بستر پر الگ کردینا اگر اس میں یہ مصلحت ہے کہ وہ باز آجائے اور شراب پینا چھوڑدے تو یہ جائز ہے اور اگر اس میں یہ مصلحت نہ ہو تو یہ جائز و حلال نہیں ہے کہ تم اس کو بستر سے الگ چھوڑدو اس لیے کہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جو اس کو تم پر حرام کردے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2003)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 494

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ