سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(523) طلا ق کے مباح ہونے کی حکمت کا بیان

  • 19371
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کی طلاق کب معتبر ہوگی؟ اور طلاق کے مباح ہونے میں کیا حکمت پنہاں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کی طلاق کب معتبر ہوگی جب اس کا خاوند اس کو اس حال میں طلاق دے کہ وہ عاقل اور مختار ہو اور اس میں وقوع طلاق کی رکاوٹیں مثلاً جنون نشہ وغیرہ نہ ہوں(یا) عورت ایسے طہر میں ہو جس میں مرد نے اس سے مجامعت نہ کی ہو یا حاملہ یا حیض سے مایوس ہے لیکن جب مطلقہ حائضہ یا نفاس والی یا ایسے طہر میں ہوگی جس میں شوہر نے اس سے مجامعت کی ہے اور وہ حاملہ اور آئسہ بھی نہیں ہے تو علماء کے اقوال میں سے صحیح قول کے مطابق عورت پر طلاق واقع نہیں ہو گی الایہ کہ شرعی قاضی اس کے وقوع کا فیصلہ کردے پس اگر وہ وقوع طلاق کا فیصلہ دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اجتہادی مسائل میں قاضی کا فیصلہ اختلاف دور کرنے والا ہوتا ہے۔

ایسے ہی اگر شوہر مجنون ہو یا اس کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو یا نشے کی حالت میں ہو اگرچہ وہ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق گناہ گار یا اس کو اتنا شدید غصہ آئے جو اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ اس نے جو شدت غضب کا دعوی کیا ہے جس پر اس کی مطلقہ بیوی کی تصدیق یا کوئی اور معتبر اور واضح شہادت بھی موجود ہو۔وہ دعویٰ صحیح ہے تو اس صورت میں مرد کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے۔

"رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاثَةٍ : عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَبْلُغَ الْحِنْثَ ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ " [1]

"تین قسم کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے بچے سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے سونے والے سے حتیٰ کہ وہ بیدار ہوجائے اور مجنون سے حتیٰ کہ اس کا جنون ختم ہو جائے۔"

اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے۔

﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ ...﴿١٠٦﴾... سورةالنحل

"جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔"

جو شخص کفر پر مجبور کیا جائے اس کو کافر قرارنہیں دیا جائے گا۔ بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہوتو جو طلاق پر مجبور کیا جائے اس کو بدرجہ اولیٰ طلاق دینے والا نہیں سمجھا جائے گا۔

بشرطیکہ اس کے طلاق دینے کا سبب صرف جبراواکراہ ہو۔

اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے اس ارشاد کی وجہ سے۔

(لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ) [2]

"غصہ کی حالت کی طلاق اور آزادی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔"

(اس کو احمد رحمۃ اللہ علیہ  ، ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ   اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ   نے بیان کیا ہے اور حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو صحیح کہا ہے)

اہل علم کی ایک جماعت نے جس میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   بھی شامل ہیں۔"الاغلاق" کی تفسیر"اکراہ اور شدید غصہ"سے فرمائی ہے خلیفہ راشد عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اہل علم کی ایک جماعت نے فتوی دیا کہ نشے باز آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوئی جب نشے نے اس کی عقل کو بدل دیا ہو اگرچہ وہ گناہگار ہے۔

رہی طلاق کے مباح ہونے کی حکمت تو یہ ایک واضح بات ہے کیونکہ بعض اوقات عورت مرد کے موافق اور مناسب نہیں ہوتی اور متعدد اسباب کی وجہ سے اکثر اس کو ناپسند کرتا ہے جیسے عقل کی کمزوری دین کی کمزوری اور بدتمیزی وغیرہ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے نکال دینے میں مرد کے لیے وسعت پیدا کر دی اور فرمایا:

﴿وَإِن يَتَفَرَّقا يُغنِ اللَّهُ كُلًّا مِن سَعَتِهِ ...﴿١٣٠﴾...سورة النساء

"اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کردے گا۔"(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث (4398)

[2] ۔حسن سن ابی داؤد الحدیث (2193)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 469

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ