سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(480) طلاق سے متعلق سوالات

  • 1938
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4206

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)کتاب وسنت سے بتائیں کہ طلاق کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟

(2) کیا تین طلاقیں دینی ضروری ہیں یا ایک طلاق سے ہی عورت فارغ ہو جائے گی ؟

(3) اگر تین طلاقیں دینی ہوں تو ان کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟

(4) تین حیض تک انتظار پہلی طلاق سے کرے گی یا تیسری طلاق کے بعد ؟

(5) کیا ہر ماہ (یعنی طہر) میں پہلی طلاق یادوسری طلاق سے رجوع سے قبل تیسری طلاق دینا صحیح ہے ؟

(6) قرآن میں ہے عدت میں طلاق دو اس عدت سے کون سی عدت مراد ہے ہر ماہ یا تین حیض ؟

(7) کیا پہلی طلاق سے رجوع کیے بغیر دوسری طلاق دے سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) حالت طہر میں قبل از مسیس یا حالت حمل میں دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ایک طلاق دینا طلاق کا شرعی طریقہ ہے ۔ آیت کریمہ میں ہے : ﴿فَطَلِّقُوْھِنَّ لِعِدَّتِھِنَّ﴾ حدیث میں اس کی تفسیر طہر قبل از مسیس اور حمل وارد ہوئی ہے نیز حدیث میں یکمشت تین طلاق دینے کی ممانعت آئی ہے اور قرآن مجید میں ہے :

﴿فَأَمۡسِكُوهُنَّ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ فَارِقُوهُنَّ بِمَعۡرُوفٖ وَأَشۡهِدُواْ ذَوَيۡ عَدۡلٖ مِّنكُمۡ﴾--الطلاق2

’’پس بند رکھو ان کو اچھی طرح یا جدا کر دو ان کو ساتھ اچھی طرح کے اور گواہ کر لو دو صاحب عدل کو آپس میں سے‘‘

(2) ایک طلاق سے بیوی زوجیت سے فارغ ہو جاتی ہے مگر عدت گذر جانے پر نہ کہ قبل از انقضاء عدت۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ الخ -وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾--بقرة228

’’ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘

(3) ایک طلاق دے پھر عدت کے اندر رجوع بلا نکاح جدید یا عدت کے بعد نکاح جدید اگر کر لے پھر کسی وقت طلاق کی ضرورت محسوس کرے تو دوسری طلاق دے اس دوسری طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا نکاح جدید یا عدت کے بعد نکاح جدید اگر کر لے پھر کچھ وقت گذرنے پر طلاق دینا مناسب سمجھے تو تیسری طلاق دے اب کے اس تیسری طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا نکاح جدید یا بانکاح جدید نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عدت کے بعد نکاح جدید ہو سکتا ہے:

﴿حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُۥۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۗ﴾--بقرة230

’’حتی کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے اب اگر دوسرا خاوند اس کو طلاق دے دے تو پہلا خاوند اور یہ بیوی آپس میں ملاپ کر سکتے ہیں اگر دونوں یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے‘‘

ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک طلاق دے جب عدت ختم ہونے کو ہو تو دوسری طلاق دے پھر اس دوسری طلاق کی عدت جب ختم ہونے کو ہو تو تیسری طلاق دے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖۗ﴾ --بقرة229

’’رجعی طلاق دوبار ہے پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے‘‘ نیز آیت کریمہ ہے :

﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمۡسِكُوهُنَّ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعۡرُوفٖۚ﴾--بقرة231

’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں وقت اپنے کو پس بند رکھو ان کو ساتھ اچھی طرح کے یا نکال دو ان کو ساتھ اچھی طرح کے‘‘

حدیث میں تسریح کی تفسیر طلاق وارد ہوئی ہے ۔

(4)  مطلقہ بالغہ غیر آئسہ اور غیر حاملہ کی عدت تین حیض ہے طلاق خواہ پہلی ہو خواہ دوسری ہو خواہ تیسری ہو ۔

﴿وَٱلۡمُطَلَّقَٰتُ يَتَرَبَّصۡنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَٰثَةَ قُرُوٓءٖۚ﴾--بقرة228

’’طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظار کریں‘‘

(5) اس کا جواب نمبر۳ میں آ چکا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ صورت بھی درست اور صحیح ہے۔

(6) حدیث میں اس کی تفسیر طہر قبل از حیض یا حمل وارد ہوئی ہے ۔

(7)اس کا جواب نمبر ۳ اور نمبر۵ میں بیان ہو چکا ہے ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

طلاق کے مسائل ج1ص 331

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ