سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) عورت قبر پر جا کر روئے تو صاحب قبر کی زیارت نہیں ہوتی ہے اور اگر نہ روئے تو زیارت ہوتی ہے یہ کہاں تک درست ہے؟

  • 19075
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 818

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیامیں اپنے بیٹے کی قبر کی زیارت کر سکتی ہوں؟ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب والدہ طلوع آفتاب سے پہلے قبر پر جائے اور وہاں پر نہ روئے اور سورۃالفاتحہ پڑھے تو اس کے بیٹے کے لیے اس کو دیکھنا ممکن ہو گا اور ان کے درمیان چھلنی کے سوراخوں کے برابر فاصلہ ہو گا اور اگر وہ روئے تو وہ اپنے بچے کی زیارت سے روک دی جائے گی یہ کہاں تک درست ہے؟نیز یہ بتائیے کہ عورتوں کے قبرستان جانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ جو عورت کا عمل ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ جمعہ کے دن طلوع آفتاب سے پہلے اپنے بیٹے کی قبر پر حاضر ہو کر سورۃ الفاتحہ پڑھے اور روئے نہیں تو اس کے لیے اس کے بیٹے سے پردہ دور کر دیا جائے گا اور وہ اپنے بیٹے کو یوں دیکھے گی جیسے وہ چھلنی کے سوراخوں کے درمیان سے اس کو دیکھ رہی ہے بلاشبہ یہ ایک باطل قول ہے بالکل صحیح اور درست نہیں ہے اس قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔

رہا عورتوں کا قبر ستان جانا تو اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض تو اس کو مکروہ کہتے ہیں اور بعض نے اس کو جائز قراردیا ہے جبکہ اس کے قبرستان جانے میں کوئی ممنوع کام شامل نہ ہو۔ اور بعض علماء نے اس کو حرام قراردیا ہے میر ے نزدیک صحیح اور علماء کے مختلف اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ یقیناً عورتوں کا قبرستان جانا حرام ہے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں اور ان پر مساجد بنانے اور چراغ جلانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے اور کسی مباح فعل پر لعنت نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی مکروہ فعل پر لعنت ہوتی ہے بلکہ فعل حرام پر لعنت ہوتی ہے بلکہ اہل علم کے ہاں جو قاعدہ مشہور ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لیے جانا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے اس لیے کہ اس پر لعنت مرتب ہوتی ہے اور وہ گناہ جب اس پر لعنت مرتب ہوتی ہو وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہو جا تا ہے جیسا کہ یہ تمام یا اکثر اہل علم کے ہاں قاعدہ ہے۔

تو اس بنا پر اس عورت کو جس کا بچہ فوت ہو گیا ہے میری طرف سے یہ نصیحت ہے کہ وہ گھر میں ہی رہ کر اس کے لیے کثرت سے استغفار اور دعا کرے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس کی دعا واستغفار کو قبول کر لے گا تو یہ اس کے بیٹے کے لیے مفید ہے اگرچہ وہ اس کی قبر کے پاس نہ بھی ہو۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 217

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ