سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1171) "تین بیٹیوں والے پے آگ حرام ہے" حدیث

  • 18778
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں آیا ہے کہ ’’جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لیے آگ سے پردہ ہوں گی۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:300/17،حدیث:830۔) کیا یہ خوشخبری صرف والد کے لیے ہے یا ماں بھی اس میں شریک ہے؟ میرے ہاں بحمداللہ تین بیٹیاں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) یہ حدیث ماں اور باپ دونوں کے لیے عام ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں:

(مَنْ كَانَتْ لَهُ ابْنَتَانِ فَأَحْسَنَ إِلَيْهِما كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ)

’’جس کی دو بیٹیاں ہوں اور پھر وہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے تو وہ اس کے لیے آگ سے حجاب اور پردہ ہوں گی۔‘‘ (بعینہ الفاظ مجھے نہیں مل سکے البتہ اس کے ہم معنی الفاظ/روایات مندرجہ ذیل مقامات پر دیکھ سکتے ہیں۔اکثر روایات میں’’من ابتلی من ھندہ البنات‘‘کے الفاظ ہیں دیکھیے:(صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،باب اتقواالنار ولو بشق تمرة،حدیث:1352وصحیح مسلم،کتاب البروالصلة والاداب،باب فضل الاحسان الی البنات،حدیث:2629مسند الطیالسي:225/1،حدیث:1614المعجم الکبیر للطبراني:392/23،حدیث:938۔)

اس میں عموم ہے۔ اگر کسی کی بہنیں یا پھوپھیاں یا خالائیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، تو بھی اس اجر عظیم کا مستحق ہو گا اور جہنم سے روک لیا جائے گااوراس کے اور جہنم کے درمیان رکاوٹ پیدا کر دی جائے گی، یہ اس کے پاکیزہ عمل کا بدلہ ہو گا۔اوریہ اجر صرف مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے۔ لہذا اگر مسلمان اللہ کی رضا کے لیے یہ نیکیاں کمائے توگویا اس نے اپنے لیے جہنم سے بچاؤ کا سبب پا لیا۔

جہنم سے بچاؤ اور جنت میں داخلہ کے کئی اسباب ہیں۔ ایک صاحب ایمان کی کثرت سے بیٹیاں ہوں، بہنیں ہوں، یا تین بچے جو بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اور (اگر کسی کے) دو (فوت ہوئے) ہوں؟ فرمایا: ’’دو بھی‘‘۔ صحابہ نے ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔ (مگر یہ معنی و مفہوم دوسری حدیث سے نکلتا ہے) آپ سے صحیح سند سے ثابت ہے، (صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب،حدیث:1192سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،جاءفی ثواب من احسیب بولدہ،حدیث:1606(اس میں ایک بچے کا بھی ذکر ہے)صحیح ابن حبان:7/206،حدیث:2944۔) فرمایا

(يقول الله عزوجل: ما لعبدى المومن جزاء إذا أخذت صفية من أهل الدنيا فاحتسب إلا الجنة)

’’اللہ عزوجل نے فرمایا ہے، میں اپنے بندے سے جب اس کی اہل دنیا میں سے کسی محبوب چیز کو لے لوں اور پھر وہ اس پر ثواب کا امیداوار ہو تو اس کے لیے جنت سے ورے اور کوئی بدلہ نہیں۔‘‘

توان شاءاللہ اس حدیث کی روشنی میں ایک بچہ بھی اگر فوت ہو جائے اور پھر اس کی ماں یا باپ یا دونوں ہی صبر کریں تو ان دونوں کے لیے اللہ کے فضل سے جنت ہے۔ اور یہی حکم شوہر، بیوی و اقارب کے امیداوار ہوں تو اس حدیث کی روشنی میں اس خوشخبری میں داخل ہوں گے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوئے ان کی وفات ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔

(2) بیٹیوں کے ساتھ احسان کے معنی:

ان کے ساتھ احسان کے معنی ہیں کہ ان کی تربیت اسلامی اصولوں پر کی جائے، حق پر ان کی پرورش ہو، انہیں عفیف و پاک دامن رکھا جائے، اظہار و زینت وغیرہ کے اعمال سے بچایا جائے۔ اور یہی عمل بہنوں کے علاوہ لڑکوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا احسان و سلوک کرنا چاہئے، حتیٰ کہ ان سب کی اٹھان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہو، حرام کاموں سے بچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس احسان کے معنی صرف کھلانے پلانے اور لباس تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس کے معنی اس سے وسیع تر ہیں کہ دین و دنیا کے سبھی معاملات میں ان کے ساتھ احسان کیا جائے۔

(3) کیا ان وعدوں کے حصول کے لیے کبیرہ گناہوں سے بچنا شرط ہے؟

ہاں، یہ ایک اہم اصول و قاعدہ ہے اور اہل السنۃ کا اس پر اجماع ہے کہ رب تعاالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت یا جنت یا جہنم سے نجات کے جو وعدے کیے ہیں وہ سب مشروط ہیں اس بات سے کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچنے والا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِن تَجتَنِبوا كَبائِرَ ما تُنهَونَ عَنهُ نُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَنُدخِلكُم مُدخَلًا كَريمًا ﴿٣١﴾... سورةالنساء

’’اگر تم منع کیے گئے کبیرہ گناہوں سے بچو گے، ہم تمہاری دوسری غلطیاں معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل کریں گے۔‘‘

یہ دلیل ہے کہ جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کرے گا، اسے یہ جزا بھی حاصل نہ ہو گی۔ کیونکہ ' ان تجتنبوا' شرط اور اس کے بعد ' نكفر عنكم' اس کی جزا اور جواب شرط ہے۔

الغرض صاحب ایمان مرد اور اسی طرح عورت سب کے لیے واجب ہے کہ کبائر سے ڈرتے رہیں اور بچیں۔

کبائر یا کبیرہ گناہوں سے مراد وہ بڑے گناہ ہیں جن پر اللہ اور رسول کی طرف سے لعنت، غضب یا جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، یا جن پر دنیا میں کوئی حد مرتب ہوتی ہے جیسے کہ زنا اور چوری ہے۔ اسی طرح ماں باپ کی نافرمانی، قطع رحمی، سودخواری، یتیم کی مال ہڑپ کر جانا، غیبت، چغل خوری اور گالی گلوچ وغیرہ سب کبیرہ گناہ ہیں، لہذا ان سے بچنا واجب ہے۔ اگر پہلے کوئی سرزدہوا ہو تو اس سے توبہ کرنی چاہئے۔

صحیح حدیث میں ہے:

(الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ ما لم تُغش الكبائر۔یا۔ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ.)

’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اورایک رمضان دوسرے رمضان تک کے مابین کے لیے کفارہ ہیں، جب تک کہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الطھارة،باب الصلوات الخمس و الجمعة الی الجمعة......حدیث:233،سنن الترمذي،ابواب اصلاة،باب فضل الصلوات الخمس،حدیث:214(مختصرا)مسند احمد بن حنبل:400/2،حدیث:9186)

اور یہ حدیث مذکورہ بالا آیت کریمہ کے عین مطابق ہے۔

اور ایک حدیث اس طرح ہے کہ آپ علیہ السلام نے وضو کر کے دکھلایا اورفرمایا: ’’جس نے وضو کیا اور عمدہ وضو کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جب تک کہ "مقتلہ" یعنی کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔‘‘(مسندالبزار:491/6،حدیث:2526،مسند احمد بن حنبل:439/5،حدیث:23769وشعب الایمان للبیھقي:96/3،حدیث:2985.)

الغرض ہر مومن اور مومن عورت پر لازم ہے کہ خیرات کمانے میں بھرپور کوشش کرے، اعمال صالحہ میں محنت کرے، برائیوں اور گناہوں سے بچے، بالخصوص کبیرہ گناہوں سے بہت ہی احتیاط کرے۔ کیونکہ ان کا انجام بڑا خطرناک ہے، اگر اللہ تعالیٰ معاف نہ فرماائے۔ خواہ یہ شرک سے کم تر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ...﴿٤٨﴾... سورةالنساء

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ کو جس کے لیے وہ چاہے گا بخش دے گا۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 822

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ