سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(796) حمل كے کے نویں ماہینے میں طلاق دینا

  • 18403
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 605

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت حمل سے تھی، چھٹے مہینے میں اور پھر نویں مہینے می، جنین نے کچھ حرکت کی، پھر کوئی حرکت نہیں کی، اور اس دوران میں شوہر نے اسے طلاق دے دی اور اب تقریبا اس کے دعوائے حمل کو چار سال ہو رہے ہیں، تو کیا یہ نکاح کر سکتی ہے، اور اس کے نفقہ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عدت والی عورتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک حمل والی بھی ہے اوراس کی عدت شوہر کی موت وغیرہ کی صورت میں بالکل وہی ہے جو طلاقیا فسخ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اللہ عزوجل کافرمان ہے کہ:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ...﴿٤﴾... سورةالطلاق

’’اور حمل والیوں کی مدت عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو جائے۔‘‘

اور بعض خواتین کا حمل جو اس طرح لمبا ہو جائے، تو ان کی عدت بھی اسی طرح طویل ہو جاتی ہے، کیونکہ وضع حمل نہیں ہوا، خواہ جنین پیٹ میں فوت ہو گیاہو۔ تو ظاہر یہی ہے کہ اسے حمل یقینا تھا، تو جب تک یہ اس کے پیٹ میں رہے یہ عدت میں رہے گی۔ اور جنین اگر پیٹ میں فوت بھی ہو گیا اور طلاق بائنہ تک ہو تو اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 569

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ