سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(752) ’’ تجھے ایک مہینے کے لیے طلاق ‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم

  • 18359
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 753

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل صورت میں طلاق کا کیا حکم ہے جب وہ ایک ہی لفظ سے ایک طلاق دی گئی ہو اور ایک متعین مدت تک کے لیے ہو؟ مثلا یوں کہے کہ: تجھے ایک مہینے کے لیے طلاق۔ کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟ پھر اگر عورت اس عرصہ میں گھر سے نہ جائے اور شوہر مہینہ پورا ہونے سے پہلے اس کے ساتھ رہنے بسنے لگے تو کیا وہ گناہ گار ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں، اس طرح طلاق ہو جاتی ہے اور یہ ایک رجعی طلاق ہو گی۔ یعنی شوہر کو حق حاصل ہو گا کہ وہ عدت کے دوران میں اس کی طرف رجوع کر لے۔ اور معلوم رہے کہ طلاق کسی متعین اور محدود وقت تک کے لیے نہیں ہوتی کہ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد وہ ختم ہو جائے۔ مثلا یوں کہے کہ تجھے ایک مہینے تک کے لیے طلاق، یا ایک سال تک کے لیے طلاق، طلاق میں ایسے نہیں ہو سکتا۔

بہرحال اگر تین کے علاوہ ایک یا دو طلاقیں ہوں اور کسی عوض پر بھی نہ دی گئی ہوں تو عدت کے دنوں میں شوہر کو رجوع کا حق ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 539

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ