سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(751) "اللہ کی قسم اگر تو ان لوگوں کے ساتھ رہی تو تو ہرگز میری بیوی نہیں رہ سکتی" کہنے سے طلاق ہو گئی؟

  • 18358
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 840

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں جب اپنے شہر سے نقل مکانی کرنے لگا تو میری بیوی نے میرے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہی رہوں گی۔ چونکہ وہ لوگ دینی معاملات میں از حد سست اور غافل ہیں، اس وجہ سے میں نے بیوی سے کہا: "اللہ کی قسم اگر تو ان لوگوں کے ساتھ رہی تو تو ہرگز میری بیوی نہیں رہ سکتی۔" چنانچہ وہ اپنے خاندان والوں ہی کے پاس رک گئی۔ تو کیا میرا اسے اس طرح کہہ دینا تین طلاقیں سمجھا جائے گا؟ اور ایسی گفتگو کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کا جواب دینے سے پہلے میں شوہروں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ طلاق کے الفاظ بولنے میں ہرگز جلدی نہ کیا کریں، اس میں انسان کو بہت الجھنیں اور پریشانیاں پڑتی ہیں۔ سب معاملات میں نکاح کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ شریعت نے کسی معاملے میں اس قدر احتیاط اور تفصیل نہیں بتائی جس قدر کہ نکاح کے معاملات میں بتائی ہے۔ اس کی ابتدا، وسط، انتہا اور فسخ کے امور تفصیل سے واضح کیے ہیں۔ کیونکہ نکاح پر نسب، میراث اور سسرالی حقوق کے علاوہ بہت سے معاشرتی مسائل مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت کڑی شروط رکھی گئی ہیں۔ تو اگر کوئی معمولی سی بات پر طلاق بول دیتا ہے تو یہ اس کے بیوقوف ہونے کی علامت ہے۔ اور پھر ایسے ہوتا ہے کہ آدمی طلاق دے بیٹھتا ہے اور پھر علماء کے در در پر پھرتا اور چکر لگاتا ہے، نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی صورت اس مشکل سے خلاصی ہو۔ اس لیے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان امور میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے۔

علاوہ ازیں شریعت کی یہ حکمت ہے کہ انسان پر حرام ہے کہ بیوی کو اس کے ایام حیض میں طلاق دے۔ کیونکہ وہ ان دنوں میں اس کے ساتھ ملاپ سے دور ہوتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ وہ بیوی کو ناپسند کر رہا ہو،اور کہہ دے کہ یہ تو ہم سے دور اور علیحدہ رہتی ہے، اور طلاق دے دے۔ اس لیے شریعت نے ایام حیض میں طلاق سے منع فرمایا ہے۔

اور ایسے طہر میں بھی طلاق دینے سے روکا ہے جس میں ان دونوں کا ملاپ ہو چکا ہو، کیونکہ عین ممکن ہے اس ملاپ سے عورت کی کوکھ میں کسی بچے کی خلقت ہو گئی ہو اور شوہر کو علم ہی نہ ہو۔ نیز ممکن ہے اس طرح اس کے جذبات کسی قدر ٹھنڈے پڑ چکے ہوں، اور اسے اس کی طرف رغبت نہ ہو، جیسے کہ ایام حیض میں ایک دوسرے سے علیحدہ تھے۔

بہرحال انسان کو طلاق کے معاملے میں انتہائی تحمل مزاج ہونا چاہئے۔ اور اگر ایسی کوئی صورت پیش آ جائے اور شوہر اپنی بیوی سے کہہ دے کہ اگر تو فلاں طرف ہو گئی تو میری بیوی نہ رہے گی یا تجھے طلاق ہو گی وغیرہ، صریح الفاظ ہوں یا اسی طرح کی کچھ کنایہ کی بات کہے، تو کنایہ کی صورت میں ہم شوہر سے پوچھیں گے کہ تمہاری اس سے نیت کیا تھی، اور حقیقت کا تو اللہ ہی حساب لینے والا ہے، کیا تو نے طلاق کا ارادہ کیا تھا کہ وہ تیری زوجیت سے نکل جائے، یا محض اسے روکنے کے لیے اور دھمکی کے طور پر یہ لفظ کہے تھے۔ اگر یہ صرف دھمکی کی نیت سے کہے ہوں تو طلاق نہیں ہو گی۔ تاہم قسم کا کفارہ واجب ہو گا، کیونکہ یہ الفاظ قسم کے حکم میں ہیں۔ اور اس مسئلہ میں اور بھی تفصیل ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 538

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ