سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) وہ کون سے امور ہیں جن سے غسل واجب ہوتا ہے؟

  • 17737
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1202

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ کون سے امور ہیں جن سے غسل واجب ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غسل واجب ہونے کے کئی امور ہیں، مثلا:

1: مادہ منی کا خارج ہونا: شہوانی جذبات کے تحت جاگتے میں ہو یا سوتے میں۔ سوتے میں ایسا ہو تو ہر حال میں غسل واجب ہو جاتا ہے، کیونکہ انسان کو بعض اوقات اپنی خبر نہیں ہوتی ہے۔

2: مباشرت (جماع) : جب مرد اپنی اہلیہ سے ہم بستر ہو اور ختنہ ختنے میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ‘‘ ’’ یعنی انزال منی سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب انما الماء من الماء، حدیث: 343۔ سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب فی الاکسال، حدیث: 217۔ سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب الذی یحتلم ولا یری الماء، حدیث: 199۔)پانی پانی سے ہے۔ اور فرمایا کہ:

إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ ثُمَّ جَهَدَهَا ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ

’’جب آدمی اپنی زوجہ کی چار شاخوں میں بیٹھے اور اس سے مشغول ہو تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الغسل، باب اذا التقی الختانان، حدیث: 291 و صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب نسخ الماء من الماء، حدیث: 348۔ سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب وجوب الغسل اذا التقی الختانان، حدیث: 191۔)

خواہ کسی کو انزال نہ بھی ہو۔

اور یہ مسئلہ یعنی جماع اور انزال نہ ہونا، اس کا حکم کئی لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ان پر ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور زوجین باہم مشغول ہوتے رہتے ہیں اور انزال نہیں ہوتا ہے، اور جہالت کی بنا پر غسل نہیں کرتے ہیں۔ تو یہ صورت حال بڑی تشویش ناک ہے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے رسول پر جو نازل کیا ہے اس کی حدود جانے اور پہچانے۔ الغرض جب شوہر اپنی بیوی سے ہم بستر ہو تو (مشغول ہونے کی صورت پر) خواہ انزال نہ بھی ہو تو دونوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ ابھی مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہوا ہے۔

3: عورت کو حیض و نفاس کا آنا: ان عوارض کے خاتمے پر عورت کے لیے واجب ہے کہ غسل کرے۔ جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾...سورة البقرة

’’اور حیض کے دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو، اور ان کے قریب مت جاؤ حتیٰ کہ وہ پاک ہوجائیں، تو جب وہ خوب پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان کے پاس آؤ، جہاں سے کہ تم کو اللہ نے حکم دیا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘

اور احادیث میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے استحاضہ والی عورت کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے حیض کے ایام میں بقدر (نماز وغیرہ سے) رکی رہے پھر غسل کرے اور نفاس والی کا بھی  یہی حکم ہے اور اس پر غسل واجب ہے۔

اور حیض و نفاس سے غسل کا طریقہ ایسے ہی ہے جیسے کہ جنابت سے غسل کیا جاتا ہے۔ [1]مگر بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر یہ بیری کے پتوں سے نہائے تو یہ مستحب ہے کیونکہ اس میں طہارت اور نظافت زیادہ ہے۔

اور کچھ علماء نے اسباب وجوب غسل میں ’’موت‘‘ کو بھی شمار کیا ہے۔ ان کی دلیل آپ علیہ السلام کا وہ فرمان ہے جو آپ نے اپنی فوت ہو جانے والی بیٹی کے متعلق عورتوں کو دیا تھا کہ:

’’اسے غسل دو، تین یا پانچ یا سات بار یا اس سے زیادہ، اگر ضرورت محسوس کرو تو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یستحب ان یغسل وترا،حدیث: 1254۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب فی غسل المیت، حدیث: 939۔)

اور ایسے ہی آپ نے اس آدمی کے متعلق فرمایا تھا جو حالت احرام میں عرفات میں اپنی اونٹنی سے گر کر مر گیا تھا کہ:

’’اس کو اپنی اور بیری کے پتوں سے غسل دو، اور اسے اس کے ان دو ہی کپڑوں میں کفن دے دو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب کیف یکفن المحرم، حدیث: 1267 و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب ما یفعل بالمحرم اذا مات، حدیث: 1206۔)

تو ان حضرات نے موت کو بھی اسباب غسل واجبی میں شمار کیا ہے مگر یہ وجوب زندوں سے متعلق ہے کہ وہ اس میت کو غسل دیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ورنہ میت سے تو اعمال تکلیفیہ ختم ہو چکے۔


[1] مگر ضروری ہے کہ اپنے گندھے ہوئے بال کھول لے، جیسے کہ احادیث میں آیا ہ (مترجم)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 170

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ