سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) كفر ونفاق کے کام انسان کو ملت اسلامیہ سے نکال دیتے ہیں؟

  • 17655
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1238

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ کیا معیار اور کسوٹی ہے جس سے معلوم ہو کہ کفر و نفاق کے کام انسان کو ملت اسلام سے نکال دیتے ہیں یا نہیں نکالتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدللہ، یہ بات اس اصول و قاعدہ سے معلوم ہو سکتی ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے اور امت کے سلف صالحین اس پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن میں سراسر خیر ہے اور شر سے بالکل خالی ہیں۔ دوسرے وہ جن میں سراسر شر ہے اور خیر سے وہ بالکل خالی ہیں۔ اور تیسرے وہ ہیں جن میں خیر و شر یعنی ایمان و نفاق اور ایمان و کفر دونوں پائے جاتے ہیں۔ اور لوگوں کی یہ تقسیم ایمان اور کفر و نفاق کے حقائق سے آگاہ ہونے پر مرتب ہے اور یہ کہ لوگوں میں ایمان اور کفر و نفاق کی صفات کس کس حد تک پائی جاتی ہیں۔

صحیح اور کامل ایمان وہی ہے جس میں بندہ اللہ اور اس کے رسول کے جمیع احکام جزئیہ و کلیہ کو تسلیم کرے اور اپنے ظاہر اور باطن میں ہر طرح سے ان کی کامل اطاعت اپنائے۔ بندہ جب فی الواقع اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے تو حقیقی طور پر کامل ایمان دار کہلاتا ہے جس میں سراسر خیر ہی ہوتی ہے اور وہ ہر طرح سے فوز و فلاح کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

اور اس کے بالعکس جس میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں وہ دین سے خارج اور کافر کہلاتا ہے۔  خیال رہے کہ منافق ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ اور اظہار کرتا ہے مگر دلی طور پر کافر ہوتا ہے۔ جبکہ کافر وہ ہوتا ہے جو اپنے انکار و کفر کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے۔

اور اگر کسی میں ایمان کی اصل موجود ہو اور مجمل طور پر عقیدہ اسلامی رکھتا ہو اور عملی طور پر دین کے تقاضوں میں خلل اور خرابی کا مرتکب ہو، حرام سے نہ بچتا ہو تو ایسے آدمی میں خیر اور شر دونوں ہوتے ہیں۔ اس میں ایسے اسباب موجود ہوتے ہیں جو اس کے لیے خیر اور ثواب کا باعث ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہوتے ہیں جن سے اللہ کی ناراضی اور اس کا عقاب آتا ہے۔ کچھ اعمال کے متعلق شارع علیہ السلام نے بصراحت فرمایا ہے کہ یہ نفاق کے کام ہیں، ان کا مرتکب منافقین کے مشابہ ہوتا ہے مثلا نمازوں میں سستی کرنا۔( صحيح مسلم، كتاب الصلاة و موانع الصلاة، باب استحباب التكبير بالعصر، حديث 622. سنن ترمذى، ابواب الصلاة، باب تعجيل العصر، حديث 160.)

ریاکاری کا مرتکب ہونا، وعدہ خلافی، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، عہد توڑنا وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن سے سزا لازمی آتی اور ثواب سے محرومی ہوتی ہے، بلکہ انسان ایمان کامل سے محروم اور منافقین کی صف میں شمار ہو جاتا ہے۔ تاہم کلی اعتبار سے ایمان سے نکل نہیں جاتا ہے۔( دیکھیے صحيح البخارى، كتاب الايمان، باب علامة المنافق، حديث33،34۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب بيان خصال المنافق، حديث 58۔ سنن ترمذى، كتاب الايمان، باب علامة المنافق، حديث 2631)

اور یہی حال کفروشرک کا ہے، یہ ایسے اعمال ہیں جو بندے کو دین اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مثلا اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلانا، اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا، یا عبادت کا کوئی حصہ مخلوقات کی طرف پھیر دینا۔

کچھ اعمال ایسے ہیں جو کفر اصغر اور شرک اصغر شمار کیے جاتے ہیں۔ مثلا مسلمانوں کے ساتھ جنگ و جدال کرنا، میتوں پر نوحہ کرنا، نسب سے براءت کا اظہار کرنا اور دکھلاوا وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کچھ کے لیے کفر اور شرک کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں مگر یہ انسان کو ایمان سے کلیتا نہیں نکالتے، کیونکہ یہ اعمال کفروشرک کی شاخیں ہیں۔

تو اس طرح سے بندے میں کچھ صفات ایمان کی اور کچھ کفرونفاق کی جمع ہو جاتی ہیں جو کتاب و سنت کے اندر بیان ہوئی ہیں۔ اور لوگوں کی صورتِ حال واقعیہ بھی ایسی ہی ہے۔ اس اصول قاعدہ کے دلائل قرآن و سنت کے اندر بہت زیادہ ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 100

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ