سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) ریا کا حکم

  • 17653
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 668

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ریا (دکھلاوے) کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ریا (دکھلاوا) شرک اصغر ہے۔ کیونکہ انسان اس سے اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو حصہ دار بنا بیٹھتا ہے اور بعض اوقات یہ عمل شرک اکبر کے درجہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے شرک اصغر کی مثال میں "معمولی ریا" کا ذکر کیا ہے اور یہ دلیل ہے کہ ریا اگر بہت زیادہ ہو جائے تو شرک اکبر تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ أَنَّما إِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ فَمَن كانَ يَرجوا لِقاءَ رَبِّهِ فَليَعمَل عَمَلًا صـٰلِحًا وَلا يُشرِك بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾... سورةالكهف

’’کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے، کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے، تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو، اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو ساجھی نہ بنائے۔‘‘

اور عمل صالح وہی ہوتا ہے جو شریعت کے مطابق اور اللہ کے لیے خالص ہو۔ اگر کوئی کام شریعت کے مطابق نہ ہو تو وہ صالح نہیں رہتا بلکہ کرنے والے کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو تو وہ مردود ہے‘‘( صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علي الصح ...، حديث: 255. صحىح مسلم، كتاب الاقضية، باب نقض الاحكام الباطلة...، حديث: 1718. مسند احمد بن حنبل: 180/6 حديث: 25511) اور فرمایا ’’اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘( صحيح البخاري، كتاب بدء الوحى، باب كيف كان بدء الوحى، حديث:1. صحيح مسلم، كتاب الامارة، باب قوله انما الاعمال بالنية، حديث: 1907) علماء فرماتے ہیں کہ یہ دونوں احادیث اعمال کے پرکھنے کے لیے میزان اور کسوٹی ہیں۔ نیت والی حدیث باطنی اعمال کی کسوٹی ہے اور دوسری ظاہری اعمال کی۔ (محمد بن صالح عثیمین)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 94

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ