سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) نبیﷺکے نام کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے؟

  • 17652
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 773

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قسم اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں: قسم ہے نبی کی اور تیری زندگی کی ۔۔ تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی چیز کی قسم اٹھانا اس کی تعظیم اور عبادت کے معنیٰ میں ہے۔ اس لیے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔‘(سنن ترمذى، كتاب النذور والايمان باب كراهية الحلف بغير الله، حديث 1535، صحيح المستدرك للحاكم: 330/4 حديث 7814، صحيح على شرط الشيخين. مسند احمد بن حنبل: 125/2 حديث 6072)اور فرمایا: ’’اپنے باپ دادوں کی قسمیں مت اٹھایا کرو، جس نے قسم اٹھانی ہے، اسے چاہئے کہ اللہ کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے۔‘‘

( صحيح البخارى، كتاب القدر، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث: 6270۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب النهى عن الحلف بغير الله تعالىٰ، حديث 1646۔ مسند احمد بن حنبل: 2/7، حديث 4523 اسناده صحيح على شرط الشيخين) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ’’مجھے اللہ کے نام سے جھوٹی قسم اٹھا لینا زیادہ پسند ہے اس سے کہ غیراللہ کے نام سے کوئی سچی قسم اٹھاؤں۔‘‘( المعجم الكبير للطبرانى: 183/9، حديث 8921) انہوں نے یہ اس لیے کہا کہ جھوٹ کا گناہ، شرک جیسے جھوٹ کے مقابلے میں ہلکا ہے۔ غیراللہ کے نام سے سچی قسم اٹھانا شرک ہے، اور اللہ کے نام سے جھوٹی قسم ایک گناہ ہے اور جھوٹ۔ شرک کی برائی، جھوٹ بولنے کی برائی سے بہت بڑی ہے اس لیے جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’مجھے اللہ کے نام کی جھوٹی قسم اٹھا لینا پسند ہے بجائے اس کے کہ غیراللہ کے نام کی کوئی سچی قسم اٹھاؤں۔‘‘

غیراللہ کے نام کی قسم حرام ہے اور شرک۔ مگر یہ شرک اصغر ہے۔ اگر یہ قسم اٹھانے والا اس کی، جس کی یہ قسم اٹھا رہا ہو اسی طرح اور اتنی ہی تعظیم کرتا ہو جتنی کہ اللہ عزوجل کی تعظیم ہے جیسے کہ آج کل قبر پرستوں کا حال ہے کہ قبروں والوں کی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اٹھا لیتے ہیں اور ان کی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں جیسے کہ اللہ کی تعظیم ہوتی ہے، ان سے دعائیں کرتے ہیں، ان سے امیدیں رکھتے ہیں، ان سے ڈرتے ہیں جیسے کہ اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، تو یہ شرک اکبر بن جاتی ہے۔ اصل میں یہ مسئلہ قسم اٹھانے والے کی دلی کیفیت اور اس کے مقصد اور نیت سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال ہے یہ شرک۔ شرک اکبر بنے یا شرک اصغر۔ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے، بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر کسی مسلمان سے ایسی کوئی بات ہو گئی ہو تو اسے فورا اللہ کے سامنے توبہ کرنی چاہئے اور آئندہ کے لیے قسم اٹھانی ہو تو صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھائے، نہ کہ کسی نبی کی یا امانت (یا ایمان) کی، نہ کعبہ کی، نہ کسی کی زندگی کی اور نہ کسی کے حق وغیرہ کی۔ کیونکہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اس سے ایمان میں کمی ہوتی اور عقیدے میں خرابی آ جا تی ہے۔

اور جب کوئی کسی کو سنے کہ وہ غیراللہ کے نام سے قسم اٹھا رہا ہے تو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور نصیحت کرے اور اسے بتائے کہ یہ کام شرک ہے اور اس طرح کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے۔ حتیٰ کہ مسلمان اس مسئلہ سے آگاہ ہو جائیں کہ یہ کام گناہ ہے اور پھر اس سے بچنے کی کوشش کریں۔

اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اور اس کے بہت سے گناہ لوگوں کی غفلت کی وجہ سے پھیل رہے ہیں اور انہیں بتایا نہیں جاتا اور مسائل کی وضاحت نہیں کی جاتی، پھر یہ بری عادتیں غالب آ جاتی ہیں اور اگر ان کی تردید نہ کی جائے تو یہ اور پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ (صالح فوزان)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 93

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ