سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) تحریق احادیث کے واقعات، روایۃ اور درایۃ حیثیت؟

  • 17602
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 948

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحریق احادیث کے واقعات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما دونوں کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔روایۃ اور درایۃ کی کیا حیثیت ہے؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت ابوبکر سے منسوب واقعہ کو امام حاکم نے اپنی سند سے اس طرح روایت کیا ہے ("مسند الصديق رضي الله عنه" قال الحافظ عماد الدين بن كثير في مسند الصديق قال: الحاكم أبو عبد الله النيسابوري حدثنا بكر بن محمد الصريفيني بمرو حدثنا موسى بن حماد ثنا المفضل ابن غسان ثنا علي بن صالح حدثنا موسى بن عبد الله بن حسن بن حسن عن إبراهيم بن عمرو بن عبيد الله التيمي حدثنا القاسم بن محمد قال: قالت عائشة: جمع أبي الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانت خمسمائة حديث، فبات ليلة يتقلب كثيرا، قالت: فغمني فقلت تتقلب لشكوى أو لشيء بلغك؟ فلما أصبح قال: أي بنية هلمي الأحاديث التي عندك فجئته بها فدعا بنار فأحرقها وقال: خشيت أن أموت وهي عندك فيكون فيها أحاديث عن رجل ائتمنه ووثقت به ولم يكن كما حدثني فأكون قد تقلدت ذلك(كنز العمال1/5)

اس روایت کی سند میں ایک راوی علی بن صالح المدنی واقع ہیں۔جن پر اس روایت کا مدار ہے ،اور وہ مستور اور غیر معروف الحال ہیں۔(قال بن كثير :على بن صالح لايعرف انتهى وقال فى التحرير وشرحه  ومثله اى الفاسق المستور وهو من لم تعرف عدالته ولافسقه فى القول الصحيح فلايكون خبره حجة حتى تطهر عدالته)

معلوم ہوا کہ یہ واقعہ روایۃ ناقابل اعتماد ہے اور اگر بالفرض صحیح بھی ہو،ان لوگوں کے لئے جوحدیث کو حجت و دین نہیں مانتے کچھ مفید نہیں ۔تحریق کی وجہ حضرت صدیق اکبر نے خود ہی بیان فرما دی ہے(وهى خشية ان يكون الذى حدثه وهم فكره تقلد ذلك) تحریق کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خارجیوں کی طرف وہ حدیث کو حجت شرعی نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ ان کو اس مجموعہ پر اطمینان و اعتماد نہیں تھا اس لئے اس کا باقی رکھنا۔۔۔۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب واقعہ طبقات 5/177 ابن سعد میں بایں لفظ مروی ہے (قال القاسم بن محمد: ان الاحاديث كثرت على عهد عمر بن الخطاب فانشد الناس ان ياتوه بها فلما اتوه بها امر بتحريقها)

یہ حکایت بھی ناقابل التفات ہے۔قاسم بن محمد نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں۔ان کی پیدائش 36 ھ میں ہوئی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ 23 ھ میں شہید کئے گئے۔اس طرح قاسم بن محمد حضرت عمر کی شہاد ت کے 13 برس بعد عالم وجود میں آئے ،پس یہ حکایت سلسلہ سند کے نقطاع یعنی ارسال کی وجہ سے مردودو نامقبول ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 525

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ