سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) ظالم خاوند كى ظلم کی وجہ سے نکاح فسخ کرنا

  • 17464
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1223

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ کانکاح عبداللہ سےہوگیا لیکن شوہر کےناقابل برداشت مظالم کےسبب ہندہ کی زندگی خطرے میں پڑگئی اورکسی صورت سے آپس کابناؤ ممکن نہ ہوسکاہندہ کےوالد نےشوہر سےتسریح باحسان کےماتحت طلاق کی التجا کی لیکن وہ ہندہ کومعلق رکھنے پر تل گیا۔آخر مجبور ہند نےحاکم وقت کے عدالت میں فسخ نکاح کی درخواست دے دی۔فیصلہ ازروئے شریعت محمدی ہندہ کےحق میں صادر ہوا لیکن پھر شوہر باز نہ آیا اور صرف ہندہ کی زندگی تلخ کرنےکے لیے منصف کورٹ سب جج اورہائی کورٹ تک برابر اپیل پر اپیل کرتارہالیکن ڈگری ہر عدالت میں ہندہ ہی رہی اسی طرح آٹھ سال پہیم ہندہ کی زندگی مقدمات کی پیچیدگیوں کی وجہ سےتلخ رہی۔اوروہ برابر اپنےوالدین کےگھر پر ہی۔بہر کیف کلکتہ ہائی کورٹ کےایک مسلم حاکم کےاجلاس میں عرصہ تک فریقین کےبیانات وشہادات پر خوب خوب غور خوض ہوتا رہا یہاں تک کہ جج موصوف نےبھی عدالت زیریں کی شہادتوں پرغور کرتے ہوئے قانون شرعیہ کی بناپر سابق فیصلوں کوصحیح تسلیم کیا اورفسخ نکاح کےحکم کوبحال رکھا۔جب عدت گزرگئی توہندہ کاعقد عبدالرحمن سےہوگا۔لیکن عبدالرحمن کی برادری کےچندآدمی یہ کہتے ہیں کہ بلاد اسلامیہ کی مانند ہندوستان میں قضائے شرعی کا بندوبست جب تک نہیں ہےیاپنچائتی سسٹم خداکاحکم نافذ کرنےسےقاصر ہے اس وقت تک لڑکی  کےلیے نجات کی کوئی صورت نہیں فسخ نکاح اورعقد نکاح ثانی سب ناجائز ہے۔اب سوال یہ ہےکہ یہ نکاح ازروئے شریعت جائز ہےیا ناجائز ہ؟نیز یہ کہ عدت ختم ہوجانےکےبعد تجدید نکاح کےذریعہ ہندہ شوہر سابق کی طرف پلٹائی جاسکتی ہےیا نہیں؟جواب مدلل بیان فرمائیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں کہ عبداللہ کےناقابل برداشت مظالم کی وجہ سےاس کی بیوی ہندہ کی زندگی خطرہ میں پڑگئی تھی اورہندہ کااس کےساتھ نباہ ناممکن ہوگیاتھاہندہ کااس سے اطلاق کامطالبہ شرعا صحیح اورحق تھا۔شریعت اسلامی میں قانون نکاح کی بنااس امر پر ہے کہ مرد اورعورت کاازواجی تعلق جب تک اخلاقی طہارت اورمحبت وصلح اورحمت وآشتی کےساتھ قائم رہےاس کوقائم اروباقی رکھاجائے اورجب یہ تعلق دونوں میں سے کسی ایک کےلیے فساد کاسبب بن جائے۔یامودت وحمت کی بجائے اس میں بغض وعدوات اورکراہت ونفرت داخل ہوجائے تواس کومنقطع اورختم کردیا جائے۔اس اصل کےماتحت اسلام نےمرد کوطلاق کااختیار دیا ہےجس کووہ بوقت ضرروت استعمال کرسکتاہےاورعورت خلع کاحق دیا ہے۔جس کےاستعمال  کی صورت یہ ہے کہ صحیح اورجائز ضرورت کےوقت جب وہ نکاح کےتعلق کوتوڑناچاہے تومردسےاگروہ طلاق نہ دے  خلع کامطالبہ کرے ۔عورت کےمطالبہ پر شرعا شوہر پر فرض ہوجاتا ہےکہ وہ اس کوطلاق یاخلق دےدے۔ارشاد ہے: ﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (سورۃ البقرہ:229) ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾(سورۃ النساء:19)﴿فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ﴾(الطلاق:6)﴿ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾(سورۃ البقرہ:231) اورآں حضرت نےارشاد فرمایا لاضررولاضرار (الموطا ) ان آیات اور حدیث کی رو سےعبداللہ کےلیے لازم اورضرروی تھاکہ ہندہ کی خواہش اورمرضی کےمطابق اس کوطلاق خلع  دے دیتا۔اپنی خود غرضی اور شرارت ونفسانیت کی وجہ سےانکار کرکےوہ  عنداللہ  عاصی اور ظالم ہوا اور جن لوگوں نےاس کوطلاق یاخلع نہ دینے پر ورغلایا اور بھڑکایا یا اکسایا اورآمادہ کیا اور کسی طرح اس کی حمایت کیاوہ بھی ظالم اورمرتکب اثم وعدوان ہوئے۔

شوہر جب عورت کےمطالبہ خلع کوپورا نہ کرے اوراس کی یہ خواہش پوری کرنےسے انکار کردے توعورت کےلیے حق خلع سے فائدہ اٹھانےکی صورت یہ ہےکہ وہ حاکم سےمدد لے حاکم کی شرعی طور پرتحقیق اورتفتیش کرے اورجب اس پر محقق ہوجائےکہ عورت کانباہ شوہر کےساتھ نہیں ہوسکتا تو عورت کی خواہش کےمطابق شوہر خلع کاحکم دے۔اگر وہ انکار کرے توقوت کےذریعہ اپنے حکم کی تعمیل پر اس کومجبور کرےیا اس کےانکار کرنےکی صورت میں اپنےانکار  کرنے کی صورت میں اپنے اختیار سےکام لے کر نکاح فسخ کردے۔

ایسی صورت میں کہ عبداللہ نےہندہ کےمطالبہ طلاق  یا خلع کوشرارت وخود غرضی  سےٹھکرادیاتھا۔ہندہ کاعدالت کی طرف رجوع کرناحق بجانب تھا کیونکہ  کہ ظالم اورنالائق شوہر سےگلو خلاصی کےلیے بجز اس کےکوئی اورصورت نہیں تھی؟اورجب ہائی کورٹ کےمسلم حاکم نےعدالت ماتحت کےشہادتوں اوربیانات پر غور خوض اوربحث تفتیش کرکےقانون اسلامی کی بنا پر عدالت  زیریں کےفیصلہ کوصیح قرار دے دیا اورفسخ نکاح کےحکم کوجائز اوردرست وصحیح تسلیم کرلیا  تو ہندہ  عبداللہ کےنکاح سےالگ ہوگئی اودونوں کے درمیان ازواجی تعلق منقطع ہوگیااورعدت ختم ہونے کے بعد اس کانکاح عبدالرحمن سےصیحح اورجائز ہوا۔د

فسخ نکاخ یاتفریق بین الزوجین سےحرمت غلیظہ نہیں متحقق ہوئی یعنی حاکم کافیصلہ فسخ طلاق ثلثہ کےحکم میں نہیں ہے پس اگر ہندہ عبداللہ سےنکاح کرنےپرراضی ہوئی توعبداللہ اس کونکاح جدید اورمہر جدید کےساتھ اپنی زوجیت میں لاسکتا تھا۔اب بھی اگر عبدالرحمن اس کو اپنی مرضی سےطلاق دے دے تو بعد انقضاء عبداللہ اس سے نکاح کرسکتا ہےبشرطیکہ ہندہ بھی اس سےنکاح کرنےپر راضی ہوجائے۔

یہ صحیح ہےکہ ہند میں قضاء شرعی کابندوست نہیں ہے اور یہ بھی درست ہےکہ غیر مسلم کاقضاء اورحکم مسلمان پرنافذ نہیں ہوتا۔لیکن یہ غلط ہے کہ اگر موجود ہ عدالتوں میں کوئی مسلمان حاکم اسلامی قانون کی روسے نکاح فسخ کردے تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔اور عورت ومرد کے درمیان  فرقت نہ واقع ہوگی اسی طرح یہ بھی غلط ہےکہ اگر پنچائتی سسٹم قائم ہوجائے تووہ نکاح وطلاق لعان وایلاء وغیرہ کےبارے میں خدا کاقانون نافذ کرنے سےقاصر ہوگا۔اسلامی حکومت قائم ہونےتک عبوری دور میں عہدہ قضاء کاقبول کرنابشرطیکہ حکومت کافرہ کےباطل قوانین میں موافقت سےاجتناب کیا جائے اوراسلامی قوانین کےمطابق  فیصلے کئےجائیں جائز ہے۔پس اگرموجود عدالتوں کےمسلمان حاکم شرعی قاعدے کےمطابق فیصلہ کریں تو ان کاحکم بھی قضائےقاضی شرعی کےقائم مقام ہوجائےگا۔قال فى الدر المختار: (وَيَجُوزُ تَقَلُّدُ الْقَضَاءِ مِنْ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ وَالْجَائِرِ) وَلَوْ كَافِرًا قيل: وليستانس لذلك من قصه يوسف عليه السلام مع ملك مصر كمايشير اليه قوله تعالى:قال اجعلنى على خزائن الارض حفيظ عليم (والله اعلم)

عبدالرحمن زوج ثانی کی برادری کےکچھ لوگوں کایہ کہنا کہ :بلاداسلامیہ کی مانند یہاں ہندوستان میں قضاء شرعی کاجب تک بندوبست نہیں یاپنچائتی سسٹم خدا کاحکم نافذ کرنےسےقاصر ہے اس وقت تک لڑکی کےلیےنجات کی کوئی صورت نہیں ۔فسخ نکاح اورعقد نکاح ثانی ناجائز ہے۔

قوانین اسلام سےناواقفی اور ان کی شقاوت اورقساوت قلبی کی دلیل ہے۔ہندوستان میں نہیں کہاجاسکتاکہ اقامت دین کی تحریک کب بار آور ہوکر انقلاب پیدا کرےگی؟اورقضاء شرعی کاکب بندوبست ہوگا؟ تواس عبوری اوربرزخی دور کی طویل مدت میں مظلوم اور مصیبت زدہ ہزار ہا عورتیں ظالم شوہروں کاتختہ مشق نبی رہیں اوران کی ازواجی زندگی کودوزخ کانمونہ بننے کے لیے چھوڑدیا جائے؟اس انسانیت کش منظر اورصورت حال کووہی شخص گوار کرے گا جوعورتوں کی زرخرید لونڈی سمجھے گااوراسلام کےدین یسر اورملت سمحہ ہونےکا قائل نہ ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ نہایت مجبوری  اوراضطرار کی حالت میں علم برداران تحریک اقامت دین بھی موجود ہ عدالتوں کےمسلم حاکم کی طرف ایسے معاملات میں مراجعت کرنے کی اجازت دینے میں تامل نہیں کریں گے۔

صورت مسؤلہ میں عبدالرحمن کےخلاف اس کی برادری کےشور وشغب کرنے والے کذب بینانی اور افتراپردازی وتہمت تراشی سےکام لینےوالے اوراس کامعاشرہ بائیکاٹ کرنےوالے لوگ ان آیات کامصداق ہیں۔

﴿ لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكـٰذِبينَ ﴿٦١﴾... آل عمران.﴿إِنَّما يَفتَرِى الكَذِبَ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ وَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰذِبونَ ﴿١٠٥﴾... سورةالنحل.﴿وَالَّذينَ يُؤذونَ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ بِغَيرِ مَا اكتَسَبوا فَقَدِ احتَمَلوا بُهتـٰنًا وَإِثمًا مُبينًا ﴿٥٨﴾... سورةالأحزاب

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 281

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ