سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) حالتِ حیض میں دی گئی طلاق کا رجوع

  • 17447
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 724

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے والدہ سےناراض ہوکر اپنی بیوی حالت حمل میں مجلس واحد میں تین تین طلاقیں دی بعدازاں رجوع کرناچاہتا ہے کیا شرعا اس کےلئے رجوع کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجلس واحد کی تین شرعا ایک رجعی طلاق کےحکم میں ہے یعنی :صرف ایک ایسی طلاق واقع ہوئی ہےجس میں شوہر کو عدت کےاندررجعت کاحق واختیار حاصل ہوتا ہےاوربقیہ دوطلاق خلاف شرع ہونے کی وجہ سے لغو اورکالعدم ہوتی ہے عن ابن عباس قال :طلق ركانة أم ركانة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:راجع امراتك فقال:اني طلقها ثلاثا؟قال قدعلمت راجعها (رواه ابوداود)وفى لفظ لأحمد : طلق ابوركانة امراته فى مجلس واحد ثلاثا فحزن عليها حزنا شديدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم راجهعا فإنها واحدة وعنه قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابى بكر وسنتين من خلافة عمر الثلاث واحدة الحديث رواه مسلم

اور مطلقه حاملہ کی عدت وضع حمل ہے  وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ قرآن کریم پس زید اپنی مطلقہ سےبچہ پیدا ہونے سےقبل رجوع کرسکتا ہے یعنی :صرف زبان سےیہ کہدینے سےکہ میں اپنی مطلقہ فلاں بیوی بنالیا(مطلقہ راضی ہو یانہ) رجوع صحیح ہوجائے گا۔زید نے اگر وضع حمل سےپہلے رجوع نہیں کیا ۔توعورت کی رضامندی سےنکاح جدید کےذریعہ اس کو اپنی زوجیت میں لاسکتا ہے ۔حلالہ شرعی کی ضرورت نہیں ہوگی۔مکتوب

صحیح احادیث کی روسے ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک ہی لفظ :تجھے تین طلاق یاتجھے طلاق۔ تجھے طلاق۔تجھےطلاق سےدی جائیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ایسی تین طلاقوں کےبعد شوہر کوعدت کے اندر(اورعدت تین حیض ہے) رجعت کاپورا پورا اختیارہے۔ اگر عدت کےاندر رجوع کرلیا جائےتو نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل احادیث سےیہ سے صراحت کےساتھ ثابت ہوتا ہے

(1) عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے (ابتدائی) دو سالوں تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار (ضروری) تھا۔ اگر ہم اس (عجلت) کو ان پر نافذ کر دیں (تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا۔ (اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے

(2)عن طاؤس أن ابا الصهباء قال لابن عباس :أتعلم إنما كانت الثلاث تبجعل واحدة على عهد النبى صلى الله عليه وسلم وابى بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ فقال ابن عباس نعم

ابوالصهباء نے ابن عباس سےکہا  کہ:کیا آپ کو معلوم ہے رسو اللہ ﷺ کےزمانہ میں ابوبکر ہیں اورحضرت عمر کےخلافت کے تین سال تک طلاقیں اس  ایک ہی شمار ہوئی تھیں؟ تو حضرت ابن عباس نےفرمایا :ہاں مسلم شریف

(3) عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَاتِ مِنْ هَنَاتِكَ، «أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً»؟ فَقَالَ: «قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ

 ابراہیم بن میسرہ نے طاوس سے روایت کی کہ ابوصبہاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ اپنے نوادر (جن سے اکثر لوگ بے خبر ہیں) فتووں میں سے کوئی چیز عنایت کریں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تین طلاقیں ایک نہیں تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: یقینا ایسے ہی تھا، اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو لوگوں نے پے در پے (غلط طریقے سے ایک ساتھ تین) طلاقیں دینا شروع کر دیں۔ تو انہوں نے اس بات کو ان پر لاگو کر دیا

ان احادیث کی روشنی میں شوہر بیوی سے عدت کےاندر بیوی رجعت کرسکتا ہے۔اگر طلاق دئیے ہوئے تین حیض یاتین حیض طہر نہ گزرا ہوا۔

طلاق خواہ غصہ کی حالت میں دی جائے یاسنجیدگی کی بہر حال واقع ہوجائے گی اورایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار کی جائے گی جیسا کہ مذکور بالااحادیث سے ثابت ہوچکا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 265

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ