سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) زمینِ خراجی میں عشر

  • 17337
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1198

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1):کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زمین خراجی میں عشر لازم ہےیا نہیں؟یعنی :ملک ہند میں جس زمین کی مال گذاری سرکار بہادر کودی جاتی ہے اس زمین کی پیدوار یعنی دھان کا عشر دیا جائے یا نہیں؟ جواب قرآن وحدیث کےمطابق دیاجائے ۔فتاوی نذیرہ جلد اول صفحہ:493پر بھی یہی سوال درج ہے۔سید نذیر حسین صاحب  مرحوم دہلوی کےفتوی پر عمل کیا جائے یا شیخ محمد عبدالرحمن المبارکپوری کےفتوی پر جومیاں صاحب فتوی کےرد کرتے ہیں۔ ان دونوں میں کن کا فتوی صحیح قابل عمل ہے؟

(2):ہمارے گاؤن میں غریب لوگ دوسرے مال داروں زمیں لےکر ہل کرتے اوردھان بوتے ہیں۔ اس زمین سےجودھان حاصل ہوتا ہے اس کےدو حصہ کرتے ہیں: ایک حصہ زمین والےکو دیتے ہیں اوردسرا حصہ اپنا خور رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں غریب لوگ جن کی اپنی زمین  نہیں حاصل کردہ دھان  کاعشر ادا کریں یا نہیں؟ ۔ اس کاجواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دیں۔

(3):غریب لوگ جن کے قبضہ میں دو تین بیگہ زمین ہےاس زمین سےاس قدر کم پیداوار مثلا دھان حاصل ہوتا ہےکہ سالانہ خرچ اس سے نہیں نکل سکتا کیا ایسی حالت میں غریب لوگ دھان کی زکوۃ یعنی عشر ادا کریں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ج:خراجی (ہندوستان میں مسلمانوں کی زمینوں پیدوار جس  کی مال گزاری وہ انگریزی حکومت کودیتے) میں عشر یا نصف عشر بلاشبہ فرض اور لازم ہے۔ اس بارے میں حضرت شیخ استاذ امام علامہ مبارکپوری نےجو کچھ لکھاہے حرف بحر صحیح ہے او ریہی واجب العمل ہے ۔علامہ مبارک نےجس قدر لکھا ہےاس پر اضافہ قطعا ضرورت نہیں بالکل کافی اور شافی تحریر فرمایا ہے۔تعجب ہےآپ پر کہ اس واضح اور قوی تحریر کے بعد بھی کسی دلیل  کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ جب صاحب ہدایہ حنفی کی پیش کردہ ہرسہ دلیل کی تردید خو زبردست حنفی عالم ابن الہمام اور مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے کردی ہے۔ تو اب خراجی  زمین میں عشر یا نصف عشر لازم نہ ہونے کی کیا دلیل رہ گئی ہےجس کی وجہ سے آپ کو شک اور تردد ہورہا ہے۔ ابن الہمام کی خود اپنی پیش کردہ  دلیل بھی ناقابل التفات ہے۔ محض ظن غالب سےوہ فریضہ الہی ذمہ سے ساقط نہیں ہوسکتا۔ جو نص قرآنی اور قول نبوی کےعموم سےثابت ہے۔اگر مسلمانوں نےاپنی بد اعمالی کی وجہ سےخدائی قانون اورفریضہ الہی نہیں بدل سکتا۔ خدائی قانون (فریضہ عشر وزکوۃ وغیرہ) بدلنے کاحق کسی انسان کونہیں ہے۔پس یہ فریضہ ہرحال میں ادا کرناواجب ہے۔استاذالعماء شیوخ حضرت میاں صاحب ﷫ کےفتوی کی بناحنفی مذہب پر ہے اور اس بارے میں ان کی یہ تحقیق ناقابل قبول ہے۔مزید تحقیق تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی2/14میں ملاحظہ کیجئے۔

ج:بٹائی پر دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والوں پر بھی اسی طرح زکوۃ یعنی عشر لازم اور فرض ہےجس طرح خود مالک زمیں پر ۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہر ایک پیدوار(دھان کی یاگیہوں کی یا جو کی مثلا) پانچ وسق :یعنی انگریزی سیر سے اکیس من سے کچھ اوپر ہو۔ اگر پیداورا اکیس من سے کم ہو توعشر یا نصف عشر لازم نہیں ہوگا۔ارشاد ہے:﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ﴾سورۃ البقرہ)

اس آیت میں ہر اس مسلمان کو عشریا نصف عشر ادا کرنے کاحکم ہےجس کےیہاں کوئی غلبہ پیدا ہوا ہوخواہ وہ زمین پیداور کےمالک کی ملکیت ہویا نہ ہو۔اور آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:ليس فيما أقل من خمسة أوسق صدقة(بخارى مسلم وغيره)

(1)معلوم ہوا کہ جس طرح سونے چاندی اونٹ گائے بکری میں زکوۃ فرض ہونےکےلئے نصاب (مقدار معین) شرط ہےاسی طرح زمین کی پیدوار میں زکوۃ(عشر یا نصف) فرض ہونے کے لئے نصاب شرط ہے یعنی: پانچ وسق یا اس سے زیادہ پیداوار ہو تب عشر یا نصف لازم ہےورنہ نہیں۔البتہ بارانی زمین میں پیدوالر کادسواں حصہ دینا پڑے گا اور چاہی وغیرہ بارانی میں بیسواں۔

ج(2)زمین کی پیداور میں زکوۃ کےفرض ہونےکے لئےصرف یہ شرط ہےکہ پیدوار کامالک مسلمان ہو اور پیداور نصاب (اکیس من انگریزی سیر سے )تک پہنچتی ہو۔چاہے زمین  اس کی اپنی ہو یا غیر کی اور اس نےبٹائی پر لے رکھی ہو۔اور خواہ اس کی مملوکہ زمین  جس میں وہ پیداوار حاصل ہوئی ہےدوتین بیکہ ہو یا اس سے زیادہ ۔اورخواہ اس پیداور سے اس مالک پیدوار کاسالانہ  خرچ نکلتا او رپور ہوتا ہویا نہ۔نصاب اور اس سے زیادہ غلہ پیدا ہونےکی صورت میں مطلقا عشر یا نصف عشر ادا کرناہوگا جیسا کہ دوسرے سوال کےجوااب میں حدیث لکھ دی گئی ہےاور وہ اس مقصد پر کھلی ہوئی دلیل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 48

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ