سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) نماز جمعہ میں بلند آواز سے تکبیر کہنا

  • 17282
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 646

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احناف کی مسجد میں جمعہ کےروز چونکہ مجمع  زیادہ ہوتاہے۔اس واسطے دوسری یاتیسری  صف سےایک آدمی بلند آوا ز سےامام کی تکبیر وں کادہراتاہے تاکہ دوروالے نمازی سن لیں اورعمل کریں ۔ لیکن جب امام ’’سمع اللہ لمن حمدہ،، رکوع سے اٹھ کر کہتا ہے، تو آدمی بلند آوازسے’’ ربنا لك الحمد ،، کہتاہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں کہتاہے؟۔ ایسا تو ہرایک مقتدی آہستہ سےکہتاہے۔اس کےایسا کہنے پردورکی صف والے رکوع سےاٹھتےہیں ۔ کیا اس کو’’ سمع اللہ لمن حمدہ ،، نہیں کہنا چاہیے ۔حدیث میں کس طرح ہے؟       اللہ بخش نئی دہلی دفتر انڈین اسٹورنظام پیلس


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت  مسئولہ میں وہ مقتدی جوامام کی تکبیروں کی دورکے مقتدیوں تک بلندآواز سےپہنجاتا ہے۔رکوع سےسراٹھانے کےبعد صرف ’’ ربنا لك الحمد ،، پراکتفاء اس لیے کرتا ہےکہ حنفیہ کےنزدیک امام کاوظیفہ رکوع سےسراٹھاتےہوئے یہ ہےکہ وہ صرف’’ سمع اللہ لمن حمدہ ،، کہے۔ اورمقتدیوں کاوظیفہ اورعمل اور حق یہ ہےکہ وہ محض ’’ ربنا لک الحمد ،،کہیں ۔یعنی : امام اورمقتدی دونوں کلموں میں ’’ سمع اللہ لمن حمدہ،،اور’’ ربنا لک الحمد ،، کوجمع نہ کریں ۔ امام صرف ’’ سمع اللہ لمن حمدہ ،، کہےاور مقتدی صرف ’’ ربنالک الحمد،، کہیں ۔ اورامام شافعی اوراہل حدیثوں کےنزدیک امام اورمقتدی دونوں ’’ سمع اللہ لمن حمدہ،، کہیں اوراس کےبعد’’ ربنا لک الحمد،،بھی کہیں۔حنفیہ کی دلیل صرف یہ حدیث ہے’’ آنحضرت ﷺ فرماتےہیں ’’ جب امام’’سمع اللہ لمن حمدہ ،، کہے۔ تواےمقتدیو! تم ربنا لك الحمد کہو،، (بخاری ،مسلم ).

ہم کہتےہیں : اس حدیث سےامام کے’’ ربنا ولک الحمد ،، کہنے کی اور مقتدی کے’’ سمع للہ لمن حمدہ ،، کہنے کی ممانعت نہیں ثابت ہوتی ۔ بلکہ اسکاظاہر مطلب تویہ ہےکہ مقتدی’’ربنا ولک الحمد،،امام کے’’سمع اللہ لمن حمدہ،،رکوع سےسراٹھا تےہوئےکہتاہے۔اورمقتدی’’ربنا ولک الحمد،،سیدھا کھڑا ہوجانے کےبعدکہتاہےجیسا کہ حدیث شریف  میں وارد ہے۔ نیز حدیث مذکوربالکل ا س حدیث کےموافق  ہےجس میں فرمایا گیا ہے: جب امام ’’ ولاالضالین ،،کہے، تواے مقتدیو! تم آمین کہو،، (بخاری وغیرہ ) ۔ جس طرح یہ حدیث امام کےآمین نہ کہنے اورمقتدی کےسورہ فاتحہ نہ پڑھنے پردلالت نہیں کرتی ہے۔ٹھیک اسی طرح حدیث مذکورہ بالا بھی امام کے’’ربنا ولک الحمد ،، نہ کہنے اورمتقدیوں کے’’سمع اللہ لمن حمدہ،،نہ کہنے پرنہیں دلالت کرتی ۔

ہماری دلیل یہ حدیثیں ہیں :’’ آنحضور رکوع سےسراٹھانے کےوقت ’’ سمع  اللہ لمن حمدہ،، کہتے اور سیدھے کھڑے ہوجانے کی حالت میں ’’ ربنا ولک الحمد،،کہتے۔،،(بخاری مسلم ) معلوم ہواکہ آپ دونوں کلموں کوجمع کرتےتھے۔

دوسری حدیث میں ارشاد ہے:’’ صلو  کما رأیتمنونی اصلی ،،  یعنی : ’’ جس طرح تم نےمجھ کونماز پڑھتےہوئے دیکھا ہےاُسی طرح تم بھی پڑھا کرو ،، یہ حکم امام ،منفرد ، مقتدی تینوں کوشامل ،پس معلوم ہواکہ امام منفرد ،مقتدی تینوں ان دونوں کلموں کوکہیں۔ایک  دوسری حدیث میں آنحضرت ﷺ فرماتےہیں :’’ اےبریدہ (صحابی)جب رکوع سےسراٹھاؤ توسمع اللہ لمن حمدہ اللھم ربنا ولك الحمد ملاء السموات وملاء الارض ،،الخ کہو (دار قطنی بسند ضعیف 1؍339) یہ حکم بھی امامت ،اقتداء انفرادتینوں حالتوں کوشامل ہے۔خلاصہ یہ ہےکہ مقتدی ’’ربنا ولک الحمد ،، سے پہلے’’ سمع اللہ لمن حمدہ ،، اور امام ’’ سمع اللہ لمن حمد ،، کےبعد ’’ ربنا ولک الحمد ،،کہے۔

                                                                (محدث دہلی ؍ 1942 )

٭ میری نظر سےسلف کاکوئی ایسا واقعہ نہیں گزرا ہے( وفوق کل ذی علم علیم ) جس میں اس امر کی تصریح ہوکہ جمعہ کی ساعۃ اجابۃ میں فلاں چیز کےلیے دعا کی گئی اوروہ حاصل ہوگئی ۔ دوسری ساعت اجابہ وامکنہ اجابہ کابھی یہی حال ہے۔قبولیت کی تین صورتوں اورحاجات کےقابل اظہار وناقابل اظہار ہونے پربھی نظر ہونی چاہیے۔

عبیداللہ رحمانی 27؍ 5؍ 1956ء (نقوش شیخ رحمانی ص : 225 )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 409

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ