سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206)دس سال سےزائد یا کم عمر بچوں کو تعلیم ،تادیب ،کسی خطاء ،جرم یانماز چھوڑنے پرمارنا ناجائز ہےیانہیں ؟

  • 17228
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1184

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتےہیں علماء شرع متین اس مسئلہ میں کہ بچوں کی (  خواہ دس سال سےزائد یاکم ) تعلیم یاتادیب یاکسی خطاء اورجرم یاصلوۃ پرمارنا ناجائز ہےیانہیں ؟ اگر مارنا ناجائز ہےتودلیل اگر مارنا جائز ہے تومارنے کی کیا حد ہے اورکس عمر والے کواورکس جرم پر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب  بچے اوربچیاں دس برس کی عمر کوپہنچ جائیں توان کونماز کےچھوڑنے  اورترک کرنے پرایسی مارمارنی جائز ہےجوسخت تکلیف ومشقت کاباعث نہ ہو اورمارنے میں چہرے سے بچنا چاہیے  اورایسی مارسے بھی بچنا ضروری ہےجس سےکسی عضو کوخاص نقصان پہچ جائے ۔’’ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ»( ابوداؤد ( كتاب الصلاة باب متى يؤمرالغلام بالصلاة (495 )1/) وفى الباب عن سبرة بن معبد الجهنى ، اخرجه الترمذى (  كتاب الصلوة باب متى يؤمرالصبى بالصلاة (704)2/259 )وابواؤد ( كتاب الصلاة باب متى يؤمرالغلام بالصلاة ( 494 )1/ ) ، قال العلقمى فى شرح الجامع الصغير : ’’ إنما أمر بالضرب لعشر ،لأنه حد يتحمل فيه  الضرب غالباًُ ، والمراد بالضرب ضرباغيرمبرح ، وأن يتقى الوجه فى الضرب،،انتهى .

بخاری ومسلم ( بخارى ، كتاب الوتر باب ماجاء فى الوتر 2/12، كتا ب الوضو ء باب قراءة القرآن بعد لحدث 1/ 53 ، ومسلم كتاب صلاة المسافرين وقصرها ، باب الدعا فى صلاة الليل (763 ) 1/ 6 ). وغيره كي ايك طويل حديث میں ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما (جن کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت کل 13برس کی تھی ) فرماتےہیں :’’ فقمت إلى جنبه إذا أغفيت أخذ بشحمة أذنى ،، ( فتح البارى 2/483 ) علامه عينى ﷫ شرح بخاری میں لکھتے ہیں :’’ وفيه جواز عرك أذن الصغير ، لأجل التأديب أو لأجل المحبة ،، اور حافظ الدنیا امام ابن احجر حدیث کی شرح کےذیل میں فرماتےہیں ( 2؍485):’’ وَفِيهِ صِحَّةُ صَلَاةِ الصَّبِيِّ وَجَوَازُ فَتْلِ أُذُنِهِ لِتَأْنِيسِهِ وَإِيقَاظِهِ وَقَدْ قيل إِن المتعلم إِذا تُعُوهِدَ بِفَتْلِ أُذُنِهِ كَانَ أَذْكَى لِفَهْمِهِ  ،،انتهى ، قال القارى : ’’ وفتلها إما لينبهه على مخالفة السنة ، أو ليزدادتيقظه لحفظ تلك الأفعال ، أو ليزيل ماعنده من النعاس ،، . ترک صلوۃ  کےعلاوہ دوسری بڑی خطاوؤں اورجرموں پرشرط مصلحت و مقتضائےوقت اس عمر کےبچے اوربچیوں کومعمولی طورپران کے مربی مارسکتےہیں ،لیکن واضح ہوکہ تمام بچوں کی تعلیم وتربیت یکساں نہیں ہوتی ہے۔بعض بچے مارسے خراب ہوجاتےہیں اور بعض بغیر مارے  ہوئے درست ہوتےہیں ، ان امور کی رعائت اتالیق  ومعلم اورنگران ومربی والدین اوراستاد کی صلاحیت اوراپنی لیاقت پرموقوف ہے۔

 (کتبہ  عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسہ دارالدیث الرحمانیہ بدہلی ۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 320

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ