سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191)فرض نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرنا

  • 17213
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2805

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے یہاں کشمیر کی بعض مساجد اہل حدیث میں نماز فرض کی ادائیگی کےبعد،بعد سلام امام ہاتھ اٹھا کر مقتدیوں کی طرف رخ پھیر کر،زورزورسے دعا مانگتا ہے اورمقتدی زورزور سےآمین آمین کہتےہیں ۔ اوربعض مساجد میں یہ طریقہ نہیں  ہےبلکہ امام اورمقتدی انفرادی صورت میں خاموشی سےدعا مانگتے ہیں ۔البتہ کلمات مسنونہ و ماثور کاپڑھنا اورنفس دعا سے بفضلہ تعالیٰ کسی کوانکار نہیں ہے۔

چندسال پہلے ایسا ہواکہ میں نے مسجد اہل حدیث مالنہ سریں نگر میں اجتماعی صورت میں دعا مانگنا ترک کیا ، کیوں کہ ’ ’صحیحین ،، کےعلاوہ ’’نسائی ،، الروضۃ الندیہ ،، سبل السلام،،نیل الاوطار ،، فتح الباری ،، مجمع الزوائد ،، اورآپ کی تصنیف ...’’ مرعاۃ المفاتیح،، میں ایسی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ، جس سے ثابت ہوتا ہوکہ مکتوب سےسلام پھیرنے پرامام بلند آواز سےدعا مانگے اورمقتدی  زور ز و رسے آمین کہتے جائیں ۔بلکہ ائمۃ الہدی نےاس طریقہ سےاختلاف کیا ہے چنانچہ مجد الدین فیروز آبادی صاحب القاموس ’ سفرالسعادۃ ، میں لکھتے ہیں کہ :’’ وہ دعا کہ جو بعد سلام کےکرتےہیں یہ  عادت پیغمبر کی نہ تھی اوریہ حدیث سےثابت نہیں ہوتا اوربدعت حسنہ ہے۔ ،، (سفرالسعادۃ اردومطبوعہ لاہور)

اور سبل السلام مطبوعہ مطبعۃ الاستقامۃ بالقاہرہ  1357ھ(1؍ 307پر):’’ ودعا الإمام مستقبل القبلة ، مستدبرا للمأمين ، ولم يأت به سنة ،، .  اسی  کتاب کی جلد چہارم باب الذکر والدعا ء ص : 325 پرہے :’’ واما هذه التى يفعلها الناس فى الدعا ء بعد السلام من الصلاة،بأن يبقى الإمام مستقبل القبلة والمؤتمون خلفه يدعون ، فقال ابن القيم:لم يكن من ذلك هدى النبى صلى الله عليه وسلم ، ولا روى عنه فى حديث صحيح ولا حسن ،،

اسی طرح اخبار ترجمان دہلی جلد :11شمارہ : 22ص:4پربحوالہ ’’ فتاویٰ ،، علامہ ابن تیمیہ برداللہ مضجعہ جلد دوم ص : 180 ایک فتوی ٰ چھپا ہےجس میں علامہ موصوف کےالفاظ یوں ہیں :’’ الحمدلله لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم  يدعو هو  والمأمون  عقيب الصلوة الخمس،كما يفله بعض الناس عقيب الفجر والعصر ، ولا نقل ذلك عن أحد ، ولا أستحب ذلك أحد من الائمة ،، (مجموع فتاوى شيخ الاسلام احمدبن تيمية 22/512) الخ

اس ليے آپ کی خدمت میں چند گزارشات ارسا ل ہیں ، امید ہےکہ تسلی بخش جواب سےمشکور فرمائیں گے؟ ۔ واللہ الموفق والمعین .

اولا : مکتوبات یعنی گ: فرض نماز وں سےسلام پھیر کرامام مقتدیون کی طرف مڑی(جب کہ سنت سےثابت ہے)اورزو رزور سے (یعنی بالجہر ) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اورمقتدی بھی آمین کہتے جائیں ، تو کیا یہ صورت أقرت إلى السنه ہےیا ابعد ؟ ۔ اوراگر امام سلام پھیرکراجتماعی صورت میں نہیں بلکہ انفرادی صورت میں کلمات ماثورہ پڑھ کردعا مانگے ، اور مامومین بھی اپنی اپنی خواہشات اورحاجات کے مطابق ہاتھ اٹھا کریا اٹھائے بارہ گاہ صمدیت میں دست بدعا ہوں  ، تو اس صورت میں امام اورمامومین گناہگار تونہ ہوں گے؟۔

ثانیا :  فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص : 328 پرمولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ﷫ نےبعد نماز مکتوبہ امام کادعا مانگنا اورمقتدی کااس میں آمین کہہ کرشرکت کوجائز قرار دیا ہے۔اوراس جواز کےلیے ابن کثیر میں مرقوم روایت کوبطور سند پیش کیا ہے،لیکن اس روایت کوبغور پڑھنے سےمعلوم ہوتاہےکہ صحابہ نےآمین نہیں کہی ہے۔پوری حدیث تفسیر ابن کثیر طبع مصر (عیسیٰ البانی الحلبی وشرکاؤہ ) جلد اول کےص : 542 پرسورہ نساء کی آیات 97تا 100 کی تفسیر میں روایت بخاری کےبعد یوں ہے:’’وقال ابن أبى حاتم حدثنا أبى حدثنا أبومعمر المقرى حدثنى عبدالوارث حدثنا على ابن زيد عن سعيد بن المسيب عن أبى هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يده بعد ماسلم ، وهو مستقبل القبلة ، فقال : اللهم خلص الوليد بن الوليد وعياش بن ابى ربيعة وسلمة بن هشام وضعفه المسلمين الذين لايستطيعون حيلة ولا يهتدون سبيلا من أيد الكفار،،

اس کےبعد مزید ایک روایت یوں درج کی ہے:’’ و قال ابن جرير حدثنا المثنى حدثنا حجاج حدثنا حما د عن على بن زيد عن عبدالله أو ابراهيم بن عبدالله القرشى عن ابى هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو فى دبر صلوة الظهر ، اللهم خلص الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبى ربيعة  وضعفة المسلمين من أيدى المشركين ، الذين لايستطيعون حيلة ولا يهتدون سبيلا .،،

اسماء الرجال کی کتابیں نہ ہونے کی بناء پر ہم میں اتنی علمی صلاحیت نہیں کہ روایت ابن ابی حاتم اورروایت ابن جریر الطبری کی سند پر کچھ کلام وبحث یعنی : جرح وتعدیل سےکام لیں ، اس لیے آپ کی طرف رجوع کی ضرورت لاحق ہوئی ، البتہ اتنا ضرور عرض کریں گےکہ اگر یہاں مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم کی طرح تعمیم بعد تخصیص سےکام لیں یااجتہادی کارنامہ انجام دیں توفرمان مصطفوی  على صاحبه الصلاة والتسليم :’’ العلم ثلاثة آية محكمة أو سنة قائمة أو فريضة عادلة ،، پربظاہر عمل نہیں ہوگا ۔اگر چہ اہل حدیث کامنصب یہی ہےکہ سنت ثابتہ کی تلاش کرے۔ہمار ی نظر سے یہ حدیث نیل الاوطار اوراعلام الموقعین اورمرعاۃ میں بھی گزری ہے۔

بعض روایت میں لفظ ’’ سنۃ قائمۃ ،، کےبدلے سنۃ ثابتۃ   ،، نظر سےگزرا ہے۔نیز حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نےایک شخص  کوچھینگ کےموقعہ پر’’ الحمدلله والسلام على رسول الله،، پڑھنے پرفرمایا کہ ’’  أنا أقول الحمدج لله والسلام على رسول الله ، وليس هكذا علمنا رسو ل الله صلى الله عليه وسلم ،، اورروایت بخاری میں حضرت براء بن عازب ﷜ کو’’ رسولك الذى أرسلت ،، آپ ﷺ نےفرمایا کہ وہی کہو جوکچھ ہم نےکہا ہے۔یعنی :’’ ونبيك الذى أرسلت ،، بظاہر یہ  دونوں روایتیں اورواقعے مولانا امرتسری  صاحت کےفتویٰ سےمطابقت نہیں رکھتے ۔مرعاۃ جلد سوم ص :279کی عبارت ’’ كان يدعوكثيرا ، كما فى الصلوة والطواف وغيرهما من الدعوات المأثورة، دبر لاالصلوات وعندالنوم وبعد الأكل ، ولم يرفع يديه ولم يمسح بهما وجهه ،، کی عبارت بظاہر میرے طریق کار کی موید ہے۔

ثالثا: ’’ البلاغ المبين فى اتباع خاتم النبيين ،، منصفہ شیخ محی الدین  مرحوم کےص:269پرابن ابی شیبہ کی روایت یوں درج ہے۔’’ روایت کیا ابوبکر بن ابی شیبہ نےاپنی مصنف میں اسود العامری سے، اس نے اپنےباپ سےکہ ’’کہا نماز پڑھی میں نے ساتھ رسو ل اللہ ﷺ کےفجر کی ، پس جب سلام پھیرا ، اٹھائے دونوں ہاتھ اپنے،دعاکےلیے اوردعا کی ۔ (آخر حدیث تک ) اس کےبعد موصوف نے ساری روایت درج نہیں کی ہے۔ حالاں کہ ان الفاظ سےبھی مقتدیوں کاآمین کہنا ثابت نہیں ہوتا ۔

مولانا محمد صادق صاحب سیالکوٹی نے’’ صلاۃ الرسول ،، کےص : 311پریہی روایت یوں لکھی ہےحضرت عامر کہتےہیں: ’’صليت الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سلم رفع يديه ودعا ،، (ابن ابى شيبه ) مصنف ابن ابی شیبہ میرے پاس نہیں ہے،اورنہ ان دوکتابوں کےعلاوہ کسی اورکتاب میں روایت نظر سےگزری ہے۔اس لیے آپ سےسوال ہےکہ یہ روایت صحیح ہے یاکہ غیر صحیح ؟ نیز ابن کثیر کی دونوں روایات ابن ابی حاتم اورابن جریر الطبری کےبارے میں لکھیں کہ یہ صحیح ہیں کہ غیر صحیح ؟

میں بحمد اللہ لیل ونہار ، سفروحضر ، خلوت وجلوت غرض ہرساعت میں بارہ گاہ صمدیت میں دعا مانگتا ہوں او ر دعا مانگنے کوعبدیت کاایک خاص شرف سمجھتا ہوں ، کیوں کہ آیات واحادیث بکثرت دعا مانگنے کامطالبہ کررہی ہیں اور بظاہر آپ ہی کےالفاظ’’إعلم ان الدعاء والتضرع من اشرف أنواع الطاعات وأفضل العبادت ،، (مرعاة جلدسوم:394 ليتهو ) كاقائل اورعامل ہوں  ، البتہ اپنی  تحقیق کےمطابق مکتوبات کےبعد روزانہ پانچ وقتوں میں ، یا جمعہ کےدن فرض نماز کےبعد،امام کاہاتھ اٹھانا اورمقتدیوں کاآمین آمین کہنا، یہ مجھے سنت سےاقرب دکھائی نہیں دیتا ،بلکہ ابعد معلوم ہوتاہےباقی اوقات وامکنہ مثلا: سحری کاوقت ۔افطارکاوقت ۔میدان جہاد میں التقاء الصفوف کاوقت اورعندرؤیہ الکعبۃ ودیگر مقامات کےبارے میں مجھے الحمداللہ کوئی شک نہیں۔ اسی طرح خطبہ جمعہ میں بھی دعا مانگنا  اورمجالس وعظ وتبلیغ میں دعا مانگنا میری عادت ہے، جس کےلیے مجمع الزوائد میں اجازت مروی ہے۔البتہ دعاء قنوت کی طرح ’’ ويؤمن من كان خلفه  ،، پانچوں نمازوں میں امام کادعا مانگنا اورمقتدیوں کاآمین کہنا اس کےلیے کوئی حدیث صحیح نظر سے ابھی  تک نہیں گزری ۔اس لیے آپ س التماس ہے کہ مسئلہ کی صحیح حقیقت آپ کےنزدیک کیا ہے؟

(   المستفتی : عبدالرشید بٹ طاہری،بٹہ مالودیارونی ،سری نگر (چیف مبلغ مسجد اہل حدیث ، بٹہ مالو)

                                امور مستفسرہ کےمختصر جوابات

(1)  پنچگانہ فرض نمازوں سےسلام پھیرنےکےبعد اذکارماثورہ پڑھ کریابغیر پڑھے ہوئے ،امام کامقتدیوں کی طرف رخ کرکے دونوں ہاتھ اٹھا کرزورزور سےدعا مانگنا ، اور مقتدیوں کاہاتھ اٹھا کرزورزور سےآمین آمین کہتے جانا۔دعا

کی ہیئت کذائی ، نہ رسول اللہ ﷺ سےصراحۃ منقول ہے،اور نہ آپ کےبعد صحابہ سے،نہ بسندصحیح نہ بسند ضعیف ۔

البتہ فرض نمازوں کےبعد آنحضرت ﷺ کابلند آواز سےدعا کرنامتعدد روایات سےمعلوم ہوتاہےاورثابت ہے۔ملاحظہ ہو:

’’ عمل اليوم والليلة لابن السنى ،، میں حدیث ام سلمہ : 108، حدیث ابوبکر :109،حدیث انس بن مالک :110،حدیث زید بن ارقم :111،حدیث ابوامامہ :113،حدیث انس بن مالک : 117، وحدیث:118، وحدیث ابوبرزہ اسلمی:124 وحدیث عبادہ بن الصامت :125 اورملاحظہ ہو: مجمع الزوائد 9؍110میں حدیث عائشہ بروایت طبرانی فی الاوسط ، وحدیث ابی الملیح بن اسامہ عن ابیہ بروایت بزار ، وحدیث انس بن مالک  بروایت طبرانی فی الاوسط والبزار، نیز حدیث انس بروایت بزار، ونیز حدیث انس بروایت طبرانی فی الاوسط ، وحدیث ابی ایوب  بروایت طبرانی فی الصغیر والاوسط ، وحدیث ام سلمہ بروایت طبرانی فی الصغیر ،  وحدیث ابوبرزہ اسلمی بروایت طبرانی ،  وحدیث ابوموسیٰ بروایت طبرانی فی لاوسط ، ان سےبعض روایتیں کتب سنن میں بھی مروی ہیں ، ان احادیث میں سے اکثر متکلم فیہ ہیں جیساکہ حافظ ہیثمی  نے  مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے، لیکن ان میں سےکسی پرموضوع ہونے کاحکم نہیں لگایا جاسکتا ، اورمجموعی طورپران سےفرض نماز سےسلام پھیرنے کےبعد امام کابلند آواز سے دعا کرنا ثابت ہوتا ہے۔ہاں البتہ ان سب میں اس بات کااحتمال ہےکہ آپ نےبلند آواز سے دعا اس لیے نہیں کی تھی کہ فرض نماز کےبعد بلند آواز یعنی : زروزور سےدعا کرنے کی مشروعیت بیان فرمائیں ،بلکہ آپ کااونچی آواز سے دعا کرنا محض اس مقصد سےتھا کہ لوگوں کوفرض نماز کےبعد نفس دعا کرنے کی مشروعیت معلوم ہوجائے، جیسا کہ اکثر علماء اہل حدیث  نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اوردعاؤن کوبلند آواز کےساتھ پڑھنے کی یہی توجہیہ کرتےہیں یاامام شافعی نے الجهر بالذكر بعدالسلام من المكتوبة  کی روایات کوتعلیم  امت لمشروعیۃ بعد السلام من المکتوبۃ پرمحمول کیاہے۔

فرض نمازو ں کےبعد دونوں ہاتھوں کواٹھا کردعا کرنابھی آنحضرت ﷺ سےثابت ہے كماسيأتى ۔ جن روایات میں ہاتھ اٹھا کردعا کرنے کاذکر آیا ہے، اگر چہ ان میں سےہرایک پرکلام کیا گیا ہے،مگر وہ کلام ایسا نہیں ہےکہ جس سےان احادیث پرموضوع ہونے کاحکم لگایا جاسکے كما سيجئي –اس لیے  ان سے امام کےلیے فرض نماز کےبعد ہاتھ اٹھا کردعا کرنےکاجواز یااستحباب ثابت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ اورچوں کہ کسی روایت سےاس طرح دعا کرنے کی خصوصیت آنحضرت ﷺ کےلیے امام کےلیے ثابت نہیں ہے،اس لیے فرض نماز کےبعد ہاتھ اٹھا کردعا کرنا ،امام اورمقتدی دونوں کےلیے جائز ہوگا ۔واللہ اعلم ۔

جولوگ امام کی دعاپر مقتدیوں کےزورزور سےآمین آمین کہنے کےقائل ہیں ۔ ان کےاس قو ل کی بنیاد قیاس ہے۔وہ دعا  بعد المکتوبۃ کودعا ء قنوت نازلہ پرقیاس کرتےہیں۔ آں حضرت ﷺ سےقنوت نازلہ میں مستضعفین مکہ کےحق میں رکوع سے سراٹھانے کےبعد دونوں ہاتھ اٹھا کربلند آواز سےدعا کرنا اور آپ کےپیچھے مقتدی صحابہ کاآمین کہتے جانا ثابت ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ : دعا کی اس ہیئت کذائی کےقنوت نازلہ کےساتھ مخصوص ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔لہذا فرض نماز سےسلام پھیرنے کے بعد بھی امام کےدونوں ہاتھ اٹھا کربلند آواز سےدعا کرنے پرمقتدیوں کازورزور سےآمین کہنا جائز ہوناچاہیے ۔

فرض نماز کےبعد امام کی دعا ء پرمقتدیوں کےآمین کہنے کےجواز پراس حدیث کےعموم سےبھی استدلال کیا جاتا ہے جومجمع الزوائد :،10؍170 میں باین الفا ظ مذکورہے:’’  عن ابى هريرة عن حبيب بن مسلمة الفهرى وكان مستجابا، أنه قال للناس :سمعت رسو ل الله صلى الله عليه وسلم يقول: لايجتمع ملأ فيدعوبعضهم ويؤمن سائرهم إلا أجابهم الله ، الحديث رواه الطبرانى.قال الهيثمى.بعد ذكره :رجالهالصحيح،غيرابن لهيعة ، وهو حسن الحديث ،،انتهى .

یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ : مقتدیوں کوعام طورپرادعیہ ماثورہ یادنہیں ہوتیں اوران کواپنی زبان میں دعا کرنے میں تکلف یاجھجھک محسوس ہوتی ہے،اس لیے یا تو وہ خاموش رہ کر امام کی دعا سننے پراکتفا کرتےہیں ۔یاامام کےہردعائیہ جملہ پرآمین آمین کہتےہیں۔اورامام کےآہستہ دعاکرنے کی صورت میں بلکل چپ بیٹھے رہتے ہیں ۔پس بہتر یہ ہےکہ امام بلند آواز سےدعا کرے اورمقتدی خاموش رہنے کےبجائے بلندآواز سےآمین آمین کہہ کراللہ سےدعا کی قبولیت کی درخواست اورسوال کریں ۔

ہمارے نزدیک اولیٰ اوراقرب الی السنۃ یہ بات ہےکہ امام سلام پھیر کراذکارماثورہ پڑھنے کےبعد مقتدیوں کی طرف مڑکر دونوں ہاتھ اٹھاکرادعیہ ماثورہ سِراً پڑھے ،اورمقتدیوں کےلیےجائز ہےکہ کہ ہاتھ اٹھا رکرادعیہ ماثورہ آہستہ آہستہ پڑھیں ،

اوراگر ادعیہ ماثورہ یادنہ ہوں تواپنی اپنی خواہش اورحاجت کےمطابق زبان میں دعا کریں ،خواہ یہ اجتماعی شکل میں ہو یاانفرادی صورت میں ۔ارشاد ہے:’’ ادعوا ربكم تضرعا وخفية ،، اورآنحضرت ﷺ کاجہر کےساتھ دعا کرنا جیسا کہ احادیث محولہ بالا سے معلوم ہوتاہےبیان مشروعیت جہربالدعاء بعد السلام  من المكتوبة اومن  التطوع كےلیے  نہیں تھا۔ بلکہ بظاہر دعا بعدالسلام کی تعلیم کےلیے اوراس کی مشروعیت بیان کرنے کےلیے تھا ۔واللہ اعلم ۔

اورکسی امر کےبطور عبادت مشروع ومسنون ہونے کےلیے نص خاص صریح ضرورت ہوتی ہے، اس کےلیے قیاس کافی نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔

رہ گئی حبیب بن مسلمہ فہری کی حدیث ۔تو اس  کےعموم سےاستدلال کےجواب میں یہ کہاجاسکتا ہےکہ وہ صلوۃ مکتوبہ باتطوع کے بعد کی دعا کےعلاوہ دوسرے اوقات کی ہنگامی دعاؤں پرمحمول ہے۔

شب وروز کےچوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ مسجد بنوی میں نماز باجماعت ہوتی تھی۔صحابہ  کاجم غفیر آپ ﷺ کےپیچھے نماز پڑھتا تھا ۔ اگر آپ ﷺ کااورصحابہ﷢ کادعا کی مذکورہ ومروجہ ہیئت کذائی پرعمل ہوتا، یعنی : آپ ﷺکی دعا کےساتھ صحابہ کےآمین آمین کہنے کادستور ہوتا توضرورمنقول ہوتا ۔ محرک وداعی نقل موجود ہونے اورمانع کےمرتفع ہونے کےباوجود عدم نقل ،دلیل ہے عدم وقوع اورترک کی لہذا حبیب بن مسلمہ فہری کی حدیث سے اس ہئیت کذائی  پراستدلال مخدوش ہے۔واللہ اعلم۔

(2)   حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری ﷫ نےفرض نمازکے بعد امام کی دعا میں

مقتدیوں  کےشریک ہوکرآمین کہنے پرابن ابی حاتم کی محولہ روایت سےجوتفسیرابن کثیر میں مذکور ہےاستدلال نہیں کیا ہے، بلکہ ان کے استدلال کی بنیاد صرف اس قدرہے کہ دعا کے ساتھ آمین کہنا چو ں کہ شرعاً ثابت ہےاور مقتدی امام کی دعا میں شریک ہوجاتے ہیں ، اس لیے اس اجتماعی دعا میں آمین کہہ سکتے ہیں ۔

کیوں کہ اصولاً ثابت شدہ امر عام رکھنا چاہیے ۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ استدلال مخدوش ہےجیسا کہ حبیب بن مسلمہ کی حدیث سے استدلال کےجواب میں گزرچکا کہ یہ عموم اس خاص صورت کےعلاوہ کےلیے ہے۔ واللہ اعلم ۔

(3)  وہ احادیث کہ جن سے فرض نماز کےبعد دونوں ہاتھوں کواٹھا کردعا کرنے

کےجواز پراستدلال کیا جاتا ہے،ان میں سے پہلی حدیث حضرت ابوہریرہ ﷜سےمروی ہےجسے ابن ابی حاتم نےروایت کیا ہے۔جس کےالفاظ آپ نےتفسیر ابن کثیر سے نقل کئے ہیں ، اس حدیث کوابن جریر نےبھی روایت کیا ہے لیکن اس میں دونوں ہاتھوں کےاٹھانے کاذکر  نہیں ہے۔

اس حدیث پرسنداً اورمعنی دونوں طرح کلام کیا گیا ہے، ا س کی سندمیں علی بن زید بن جدعان واقع ہیں اوروہ متکلم فیہ راوی ہیں ۔

حافظ نے’’ تقریب ،، میں اور اکثر محدثین نےانہیں ’’ضعيف سئى الحفظ ،، بتایا ہےاورامام ترمذی  نےان کےبارے میں کہا ہے ’’ صدوق ، إلا أنه ربما رفع الشئى الذى يوقفه غيره ،، (تهذيب التهذيب 7/ 323) . اورساجى نے کہا ہے :’’ كان من أهل الصدق ويحتمل الرواية الجله عنه ، وليس يجرى مجرى من اجمع على ثبته ،،(التهذيب 7/224) عجلى کہتے ہیں : كان يتشيع لا بأس به ، وقال مرة : يكتب حديثه وليس  بالقوى ،،(معرفة الثقات العجلى  ( 1298)2/154 والتهذيب 7/323 )  اوريعقوب بن شیبہ نےکہا ’’ هو ثقة صالح الحديث ، وإلى اللين ماهو ،، اورتہذیب التہذیب ( 7؍324)میں ہے:  روى له مسلم مقرونا بغيره ،، اس تقصیل سےمعلوم ہوا کہ  کہ علی بن زید مختلف فیہ راوی ہیں اور ایسے راوی کی روایت کردہ حدیث ضعیف توکہی جاسکتی ہےلیکن ناقابل اعتبار  واستشہادنہیں ہوتی اور اس پرموضوع ہونے کاحکم نہیں لگایا جاسکتا ۔بالخصوص جبکہ اس کی مؤید دوسری غیر موضوع روایات موجود ہو ں ۔

اورمعنوی کلام اس میں یہ کیا جاتا ہےکہ اس حدیث کاامام بخاری نے اپنی صحیح کےمتعدد ابواب میں روایت کیا ہے، لیکن اس میں اس کی تصریح ہےکہ آپ نےدعاء مذکور نماز میں مانگی تھی ۔نیز یہ کہ یہ مخصوص دعاء قنوت تھی جورکوع سےسراٹھانے کےبعدکی گئی تھی ۔اس  کافرض نماز کےبعد دعا کےمروج طریقہ سےکوئی تعلق نہیں ۔ اس کےجواب میں بطور تطبیق کےیہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نےدعا مذکور نماز کےاندر رکوع کےبعد بھی کی تھی اورنماز سےسلام پھیرنے  سےسلام پھیرنے کےبعد بھی مانگی تھی،بخاری کی روایت  میں پہلی صورت کاذکر ہےاور ابن ابی حاتم اور ابن جریر کی روایت میں دوسری صورت کا، مستضعفین کی خلاصی کےلیے دعا نماز کےاندر کےساتھ مخصوص نہیں ہے۔

دوسری حدیث  انس کی ہےجسے ابن السنی نےعمل الیوم واللیلہ ص : 48 میں عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن القرشی عن خصیف عن انس کےطریق سےروایت کیاہے۔شروع کےالفاظ یہ ہیں :’’ مامن عبد بسط كفيه فى دبر كل صلاة ، ثم يقول: اللهم الهى واله ابراهيم واسحاق  ويعقوب ،،الخ اس حديث پربھی سنداً کلام کیاگیا ہے۔اس کےراوی  خصیف بن عبدالرحمن کے بارے میں حافظ لکھتے ہیں :’’ صدوق سئى الحفظ خلط بآخره ،، ( تقريب ص : 324 )  اور ابن حبان لكها ہے :’’ وتركه جماعة من ائمتنا واحتج به آخرون ،وكان شيخا صالحا فقيها عابداً ، إلا أنه كا يخطئ كثيرا ، فما يروى ويتفرد عن المشاهير بمالا يتابع عليه ، هو صدوق فى روايته ، إلا أن الإنصاف فيه قبول ماوافق الثقات فى الروايات ، وترك مالم يتابع عليه ، وقد حدث عبدالعزيز عنه عن أنس بحديث منكر ولا يعرف له سماع من أنس ،،انتهى . كذا فى تهذيب التهذيب 3/144.

اورخصيف  کےشاگرد عبدالعزیز بن عبدالرحمن قرشی ’’ میزان الاعتدال ،،(2؍631،رقم الترجمہ :5112) کےرجال میں سے ہیں حافظ ذہبی ان کےترجمہ میں لکھتے ہیں :’’ عبدالعزيز بن عبدالرحمن البالسى عن خصيف ، اتهمه الإمام أحمد، وقال ابن حبان ، كتبنا عن عمربن سنان عن اسحاق بن خالد عنه نسخة شبيها بمائة حديث مقلوبة، منها مالا أصل له ، ومنها ماهو ملزق بإنسان لايحل الاحتجاج به ، وقال النسائى وغيره : ليس بثقة ، وضرب أحمد بن حنبل على حديثه ، ، انتهى  اورحافظ ’’ تهذيب التهذيب،، (3/144 ) میں خصیف کےترجمہ لکھتے ہیں :’’  قال ابن عدى : إذا حدث عن خصيف ثقة فلا بأس بحديثه وراياته ، إلا أن يروى عنه عبدالعزيز بن عبدالرحمن ، فإن رواياته عنه بواطيل ، والبلاء من عبدالعزيز لا من خصيف ،،انتهى . معلوم ہواکہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن عن خصیف عن انس کی یہ روایت سخت مجروح اورضعیف ہےاور صرف یہ تنہااس لائق نہیں ہےکہ اس سے رفع اليدين فى الدعاء بعد الصلاة المكتوبة   پر استدلال کیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔

تیسری حدیث عبداللہ بن زبیر کی ہے جسے حافظ ہیثمی نے’’ مجمع الز وائد ،،10؍169میں  بایں الفاظ ذکر  کیا ہے:’’ عن محمد بن ابى يحيى قال رأيت عبدالله بن الزبير ، ورأى رجلا رافعا يديه ، يدعوقبل أن يفرغ من صلاته ، فلما فرغ منها قال:إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلوته ، قال الهيتمى : رواه الطبرانى  وترجم له فقال : محمد بن ابى يحىى الأسلمى عن عبدالله بن الزبير ورجاله ثقات،،انتهى . محمد بن ابی یحیی مذکور ابوداؤد ، ترمذی  فی الشمائل ، نسائی ، ابن ماجہ کےرجال میں سے ہیں ان کوحافظ نےصدوق  لکھا ہے( تقریب ص :324) اورعجلی نےان کی توثیق کی ہے(معرفۃ الثقات 2؍257 (1660 )

(2)اورابن شاہین نےان کےبارےمیں کہا ہےکہ ’’ فیہ لین ،،( التہذیب 9؍ 523 ) معلوم ہواکہ یہ روایت حسن سےکم درجہ کی نہیں ہے۔

چوتھی حدیث اسود عامرے عن ابیہ کی ہے۔جوبحوالہ ابن ابی شیبہ بایں لفظ ذکر کی جاتی ہے:’’عن الأسود العامر ى عن أبيه قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه الفجر،فلما سلم انحرف ورفع يديه ودعا ،،الحديث . حضرت الشیخ علامہ مبارکپوری ’’تحفۃ ،، 1؍246 میں لکھتے ہین :’’ رواه ابن ابى شيبة فى مصنفه ، كذا ذكر بعض الاعلام هذاالحديث بغير سند وعزاه الى المصنف ، ولم أقف على سنده فالله تعالى  أعلم كيف هو ؟ صحيح أو ضعيف ؟،،انتهى كلام الشيخ . اس روایت کوانہیں لفظوں کےساتھ شیخ محی الدین مرحوم نے’’البلاغ المبین ،، میں اورمولانا محمد صادق سیالکوٹی  نے’’ صلوۃ الرسول ،، میں لکھا ہے ، جیسا کہ آپ  نے اپنے سوال میں تحریرفرمایا ہے۔ اوراسی طرح ’’ فتاویٰ نذیریہ ،،1؍245۔252 میں بھی مرقوم ہے۔

غالباً مولانا سیالکوٹی نےیہ روایت ’’ فتاویٰ نذیریہ ،، 1؍265؍266سےلی ہے۔فتاویٰ 1؍265 میں روایت بایں لفظ مذکور ہے : ’’عن الأسود بن عامر عن أبيه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه الفجر ، فلما سلم انحرف ورفع يديه ودعا ،، الحديث . فتاویٰ میں تینوں مقام پریہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ   کےحوالے سےنقل کی گئی ہے، معلوم نہیں کہ ان تینوں مقام کےاصل مفتی حضرات (مولوی عین الدین ، مولوی عبدالغفور،مولوی  عبدالرحیم مرحومین ) نےاصل کتاب ’’ مصنف  ابن ابی شیبہ ،، سےبراہ راست نقل کی ہےیاکسی اور کتاب سے ؟ کہ جس کےمصنف نےیہ حدیث مذکورہ سند اورلفظ کےساتھ مصنف  ابن ابی شیبہ سےنقل کی ہو۔ واللہ اعلم ۔

بہرحال یہ روایت فرض نماز سےسلام پھیرنے کےبعد ہاتھ اٹھاکردعا کرنے پردلالت کرنے میں صریح ہے،اور جس قدر ٹکڑا سند کا’’ فتاویٰ نذیریہ ،، کےتینوں مقاموں میں مذکورہے بالخصوص ص : 265 میں ، اس سےمعلوم ہوتا ہےکہ اسود عامری تابعی ہیں۔اور ان کے باپ کانام عامر ہے،اور وہ صحابی ہیں جنہوں نے آنحضور ﷺ کےساتھ فجر کی نماز ادا کرنے اورسلام پھیرنے کےبعد آپ کےمقتدیوں  کی طرف منہ پھیر کردونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کودیکھا ہے، اوراپنے بیٹے اسود اس واقعہ کوبیان کیا ہے، اور ان  تینوں مقاموں میں ’’الحدیث ،یا ’ ’ الخ ،،  کہنے سےمعلوم ہوتا ہےکہ یہ حدیث ’’ مطولا ،، مروی ہےجس کو خود مصنف یاکسی راوی نےمختصرا ً بیان کیا ہے،یامذکورہ مفتی صاحبان نےحدیث کابقیہ حذف کرکے’’ الحدیث’’الخ،، لکھ کراس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ کےدوابتدائی جزء جومولانا عبدالتواب صاحب ملتانی مرحوم کےاہتمام سےلیتھو پرطبع ہوئے ہیں اورتین ابتدائی حصے جوٹائپ  پر مطبع عزیزیہ حیدر آباد دکن میں 1386ھ میں چھپے ہیں اور اس کےدس اجزاء مطبوعہ الدار السلفیہ بمبئ اس وقت  ہمارے سامنے ہیں اس حدیث کےذکر کےلیے  دومقام اورمحل مناسب ہیں :ایک  :’’ كتاب الصلوة باب الانحراف بعدالسلام ،، اور دوسرامقام :’’ كتاب الادعية ، باب الدعاء برفع اليدين بعدالسلام ،، کتاب الصلوۃ اورکتاب الادعیۃ میں تویہ حدیث مذکورہ آخری سند ولفظ کےساتھ موجود نہیں ہے، اورہم کواطمینان نہیں ہے کہ مذکورہ سند الفاظ محفوظ ہوں ۔

اولاً :  اس وجہ سے کہ ہمارے  پاس موجود اسماءالرجال کی کتابوں میں ’’ اسودبن عامر،،اسودبن عامری ،، نام کا تابعی اور’’ عامر،،نام کاصحابی جس سےان کےبیٹے اسوداس واقعہ کوروایت کرتے ہوں نہیں ملے ۔

دوسرے :یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ 1؍ 205 مطبوعہ ملتان اور1؍ 302 طبع حیدآباد’’من كان يستحب اذا سلم ان يقوم أو ينحرف ،، میں ایک  حدیث بایں سندوالفاظ مذکورہے :’’ حدثنا هشيم قال نايعلى بن عطاء عن جابر بن يزيد بن الاسود العامرى عن ابيه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ،فلما سلم انحرف ،،اور 4/372 . باب يصلى  فى بيته ثم يدرك جماعة ،، میں بھی یہ مروی ہے  كما سيأتى –یہ روایت سنداً صحیح ہے اس کےتمام راوی ثقہ ہیں ، یعلی بن عطاء کے استاذ جابر بن یزید بن الاسود العامری ثقہ تابعی ہیں ۔ اوران کےوالد یزید بن الاسود صحابی ہیں ۔جن سےان کےلڑکے جابر بن یزید یہ  واقعہ روایت کرتےہیں  کہ انہوں نےآنحضرت ﷺکےساتھ منی میں فجر کی نماز ادا کی اور جب  آپ نےسلام پھیرا توپھیراتوقبلہ کی طرف سےرخ پھیرکرمقتدیوں کی طرف کرلیا ۔اس رویت میں ہاتھ اٹھاکردعا کرنے کاذکر نہیں ہے۔کماتری .

تنبیہ :  واضح ہوہ مصنف ابن ابی شیبہ طبع ملتان میں ’’جابر بن يزيد بن الأسود العامرى ،، کےبحائے ’’عن جابر بن يزيد عن الأسود العامرى ،، ہے جس سےمعلوم ہوتاہےکہ ’’اسود عامری ، ، کوئی راوی ہیں جن سے ’’ جابربن یزید ،، روایت کرتے ہیں۔ غالباً مولانا عبدالتواب ملتانی  کےاصل قلمی نسخہ میں یوں ہی یعنی: ’’ جابربن یزید عن الاسود ،، رہا ہوگا جس پران کوتنبیہ نہیں ہوا،اور اصل کےمطابق جوں کوتوں چھاپ دیا، لیکن ہمارے نزدیک میں تصحیف ہوگئی ہےیعنی : اصل میں یزید بن الاسود تھا’’بن ،، کےبجائے ناسخ کی غلطی سے ’’عن ،، ہوگیا ،اس قسم کی تصحیف کاہوجانا ذرا بھی مستبعد نہیں ۔

’’ فتاویٰ نذیریہ ،، کےتینوں مفتی حضرات کےسامنے بھی مصنف کایہی نسخہ رہا ہوگا جس میں ’’ بن الاسود ،، کےبجا ئے ’’ عن الاسود ، ، ہے ۔ اورمصنف طبع حیدرآباد میں ’’ یزید بن الاسود ،،یا ’’ یزید عن الاسود،، کےبجائے ’’ یزید الاسود ،، طبع ہوا ہے’’بن ،)یا ’’عن ،،سرے سے ساقط ہوگیا ہے۔ہمارے نزدیک یہ بھی غلط ہے۔صحیح ۔’’’ یزید بن الاسود،، ہےاس کی دلیل یہ ہےکہ یہ حدیث سنن ابوداؤد (کتا ب  الصلاۃ (664)1؍409) عون المعبود1؍237،’’ باب الامام ينحرف بعد  السلام ،، میں بطریق ابوداؤد اس طرح مروی ہے:

’’ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ «صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا صَلَّى انْحَرَفَ،، هذا الفظ النسائى ، ولفظ أبى داؤد : ’’ قال : صليت خلف رسو ل الله صلى الله عليه وسلم ، فكان إذا سلم انحرف ،، اور حافظ ’’ اصابه ،، 3/614میں لکھتے ہیں : یزید بن الأسود  العامرى ويقال الحزاعى ، روى عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه صلى خلفه ، فكان إذا انصرف انحرف ، روى عنه جابر بن يزيد ولده ، وحديثه فى السنن الثلاثة بهذا وغيره ،، معلوم هوا کہ یزید مذکوراسود کےبیٹے ہیں اورصحابی ہیں جن سےان کےلڑکے جابر بن یزید واقعہ مذکورہ روایت کرتےہیں ۔پس مصنف کی سندیوں ہونی چاہیے ۔’’ عن جابر بن يزيد بن الاسود العامرى عن ابيه .،،

فتاویٰ نذیریہ کےتینوں مقاموں میں روایت مذکورہ کےآخر میں الحدیث یا الخ کےذریعہ جس طویل روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اسی سند کےساتھ مسند احمد (4؍161) ، ترمذی مع التحفہ (1؍188) ، ابوداؤد مع العون (1؍225ھ)،نسائی (1؍99) ،دارقطنی  (ص : 158؍159 ) ، مستدرک حاکم (1؍245)،بیہقی (1؍201)صحیح ابن حبان ،صحیح ابن السکن مصنف عبدالرزاق 2؍421،مسندابوداؤدالطیالسی معرفۃ الصحابہ لابن مندۃ ، المصنف لابن ابی شیبہ (2؍272۔273 ) ’’ باب يصلى فى بيته ثم يدرك جماعة،، میں مروی ہے۔

جامع ترمذی کےالفاظ یہ ہیں :’’ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلاَةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الخَيْفِ، فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ انْحَرَفَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى القَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ، فَقَالَ: عَلَيَّ بِهِمَا، فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا، فَقَالاَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا، قَالَ: فَلاَ تَفْعَلاَ، إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ، فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ. ،، ( كتاب الصلاة باب ماجاء فى الرجل يصلى وحده ثم يدرك الجماعة (219)1/424) . اسی کےقریب دوسری  مذکورہ کتابوں کےالفاظ بھی ہیں۔

مذکورہ تفصیل سےواضح ہوگیا کہ مختصر اورمطول دونوں میں سے کسی روایت میں بھی ’’ورفع یدیہ فدعا،، کی زیادۃ موجود نہیں ہےاورسند میں ’’ جابر بن یزید بن العامری عن ابیہ ،، یعنی :’’ بن الاسود ، ، کےبجائے ’’  عن الاسود ،، یا’’ بن ، ، کےحذف کے ساتھ ساتھ صرف ’’ الاسود ،، غلطہے۔ ہماری  اس تحقیق کی بناء پرقائلین دعاء برفع الیدین بعدالسلام عن المکتبوبۃ کی چوتھی دلیل قابل اطمینان ولائق قبول نہیں رہ جاتی ۔واللہ اعلم۔

فرض نماز سےسلام کےبعد ہاتھ اٹھا کردعا کرنے کےثبوت میں وہ احادیث بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں بلاوقت کی تعیین کےہاتھ اٹھاکردعا کرنامذکورہے ۔ یاہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی فضیلت وارد ہے۔ جوتحفہ الاحوزی وغیرہ میں مذکورہیں ۔

ہمارے نزدیک فرض نماز سےسلام پھیرنے کےبعد بغیرالتزام کےامام اورمقتدیوں کاہاتھ  اٹھا کر آہستہ آہستہ دعا کرنا جائز ہے،خواہ انفرادی شکل میں ہو یااحتماعی شکل میں۔ ہمارا عمل اسی پر ہے پانچوں نمازوں کےبعد اجتماعی شکل میں دعا کرنے کاالتزام نہیں ہے۔غرض یہ ہےکہ دعا کبھی ہاتھ اٹھا کرکی جاتی ہے،اور کبھی بغیر ہاتھ اٹھائے ہوئے، اورکبھی اجتماعی شکل میں اور کبھی منفرداً ۔ ہمار ی تحقیق میں ہی صورت اقرب الی السنہ ہے۔ اورامام کےسلام پھیرنے کےبعد اس کابلند آواز سےدعا مانگنا اورمقتدیوں کاہاتھ اٹھا کرزورزور سے آمین کہتے جانا  اور امام اورمقتدیوں کی دعا کی اس ہیئت کذائی کوموکد سمجھ کر اس کاالتزام کرنا ، یہ طریقہ سنت سےبعید ہےاورمیرے نزدیک مجدالدین فیروز آبادی صاحب سفرالسعادۃ اورحافظ ابن القیم اورامام ابن تیمیہ کےمذکورہ کلاموں کاجنہیں آپ نے سوال میں ذکر کیا ہےیہی محمل ہے۔ مطلقا ‎ً دعا کرنے کاخواہ ہاتھ اٹھاکرہو یابغیر ہاتھ اٹھائے ہوئے اس کا انکار مقصود نہیں ہے۔حضرت نواب والا جاہ مرحوم ’’دلیل الطالب ،، 1؍323میں سفرالسعادۃ سےاس کےمصنف کامذکو  ہ کلام نقل کرنے کےبعد تحریر فرماتےہیں ۔ مراد نفى دوام است بهئيت كذائى اليوم والا دعا بعداز فريضة ثابت ست كما تقدم ،، انتهى .هذا ماظهر لى والعلم عندالله  تعالى.

                املاه عبيدالله الرحمانى المباركفورى 18/11/1397ھ

         (محدث بنارس جون 1982ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 302

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ