سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(171)مسبوق کو فوت شدہ رکعت اورمنفرد کی جہری نماز میں قراءۃ بالجھر ہونا چاہیے یا بالسر ؟

  • 17193
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 783

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسبوق کوفوت شدہ رکعت اورمنفرد کی جہری نماز میں قراءۃ بالجھر ہوناچاہیے یا بالسر ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ معلوم ہےکہ جہری نماز میں قراءۃ بالجہر اورسری میں قراءۃ بالسرحنفیہ کےنزدیک واجبات سے ہے، اورائمہ ثلاثہ کےنزدیک غیرواجب ہےیعنی:سنن صلاۃ سےہے، وجوب پرکوئی نص صریح نہیں ہے۔ بجز عمل رسول وتوارت  وتعامل امت کے،خلفاً عن السلف ، اس پرحدیث کےنام سےابوعبیداللہ اورمجاہد کایہ قول :’’ صلاة النهار عجماء ،، اوردوسرا مرسل روایتیں بھی پیش کی جاتی ہیں جن کےالفاظ یہ  ہیں ، حسن بصری اورزرہری  کہتےہیں :’’ سن رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يجهر بالقراءة فى الفجر ........ ويقرأ فى نفسه .... (مرسيل ابى داؤد ) یہ بھی معلوم ہےکہ جہری خصائص  امامۃ وجماعت سےہے۔ اس لیے تمام ائمہ کےنزدیک منفرد کواختیار ہےکہ جہری نماز سراً پڑھے یا جہراً ، البتہ حنفیہ  کےنزدیک جہراً پڑھنا افضل ہے، ليكون الأداء على هيئة الجماعة ، اور امام شافعی کےنزدیک بھی منفرد کےلیے جہری میں جہرسنت ہے۔ لأنه غير مأموربالإنصات لأحد فأشبه الإمام ، مسبوق منفرد کی  طرح  ہے، اس لیے وہ بھی مخیّر ہے۔ بين الجهر والمخافتة ، ’’ وَأَمَّا الْمُنْفَرِدُ فَظَاهِرُ كَلَامِ أَحْمَدَ أَنَّهُ مُخَيَّرٌ وَكَذَلِكَ مَنْ فَاتَهُ بَعْضُ الصَّلَاةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَامَ لِيَقْضِيَهُ. قَالَ الْأَثْرَمُ: قُلْت لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: رَجُلٌ فَاتَتْهُ رَكْعَةٌ مَعَ الْإِمَامِ مِنْ الْمَغْرِبِ أَوْ الْعِشَاءِ، فَقَامَ لِيَقْضِيَ، أَيَجْهَرُ أَوْ يُخَافِتُ؟ قَالَ: إنْ شَاءَ جَهَرَ، وَإِنْ شَاءَ خَافَتَ.

ثُمَّ قَالَ: إنَّمَا الْجَهْرُ لِلْجَمَاعَةِ، قُلْت لَهُ: وَكَذَلِكَ إذَا صَلَّى وَحْدَهُ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، إنْ شَاءَ جَهَرَ، وَإِنْ شَاءَ لَمْ يَجْهَرْ؟ قَالَ: نَعَمْ، إنَّمَا الْجَهْرُ لِلْجَمَاعَةِ. وَكَذَلِكَ قَالَ طَاوُسٌ، فِيمَنْ فَاتَتْهُ بَعْضُ الصَّلَاةِ وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَلَا فَرْقَ بَيْنَ الْقَضَاءِ وَالْأَدَاءِ،، ( المغنى 2/ 280 / 281 ) معلوم ہواکہ  منفرد ومسبوق کےبارےمیں تخیر یاافضلیت وسنیت ،جہرفی الجہر یہ کا مسئلہ محض اجتہادی  وقیاسی ہے، منصوص نہیں ہے، اوراس کےلیے وجوب جہرکاتوکوئی بھی قائل نہیں ہے۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 266

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ