سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169)کیا رکوع میں شامل ہونے سے رکعت کو شامل کیا جائے گا؟

  • 17191
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 777

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیثوں کاخیال ہےکہ فرض نماز میں جبکہ امام رکوع میں ہو، اس وقت جماعت میں شامل ہونے پر وہ رکعت نہیں ہوگی اوریہ بات فتاوٰی نذیریہ وغیرہ میں بھی ہے اوران کی بنیاد اس حدیث پرہےکہ جوشخص امام کوحالت رکوع میں پاوے وہ امام سےساتھ شامل ہوجائے اوررکعت کولوٹائے (یہ روایت عون المعبود 3؍145؍146پر ہے) لیکن ’’ صحیفہ اہل حدیث کراچی ، 23،نومبر 1953ءکے صفحہ نمبر 21 پرمولانا عبدالقادر صاحب حصاری تحریر کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا حدیث رسول ﷺ کاقول نہیں ہے۔اور اس کے خلاف بیہقی میں ابوہریرہ کی حدیث سےرکعت ہوجانے کاثبوت دیتےہیں ۔دونوں حدیثوں میں صحیح حدیث کون ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بےشک یہ حدیث ’’ جو شخص امام کوحالت رکوع میں پائے وہ رکوع میں امام کےساتھ شامل ہوجائے اوررکعت کولوٹائے ۔،، رسول اللہ ﷺ کاقول یعنی :حدیث مرفوع نہیں ہے بلکہ ابوہریرہ ﷜ کاقول اورفتویٰ ہے۔ لیکن جوعلماء مدرک رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں ان کےاستدلال کی بناء اس موقوف حدیث پرنہیں ہے۔ان کی اصل دلیل یہ ہےکہ : قیام جومحل قرأۃ ہے، نما ز کارکن ہے اوراس کی ر کنیت قرآن،حدیث ،اجماع اورتعامل امت سے ثابت ہے ، اور اسی طرح قرأۃ فاتحہ نماز کادوسرا رکن ہے جس کی رکنیت وفرضیت احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے۔مدرک رکوع سے یہ دونوں رکن فوت ہوجاتےہیں اورکسی صحیح حدیث یاحسن غیرمعلول صریح مرفوع حدیث سےمدرک رکوع کااستثناء اور تخصیص اوران دونوں رکنوں کااس سےاسقاط ثابت نہیں ۔ جوحدیثیں اس مقصد سے پیش کی جاتی ہیں ان میں اگرکوئی سنداً صحیح ہےجیسے حدیث ابوبکر ﷜ ، تووہ اس مضمون میں صریح نہیں بلکہ اس کا احتمال بھی نہیں رکھتی کما حققہ البخاری فی جزء القراءۃ اور جو بظاہر صریح معلوم ہوتی ہیں صحیح بلکہ حسن بھی نہیں ہیں ۔ضعیف اورناقابل احتجاج ہیں ۔ مثلاً یہ حدیث (الحرح والتعدیل 9؍155) عن ابى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا جئتم إلى الصلوة ونحن سجود فاسجدوا ولا تعدوها شيئا ، ومن أدرك الركعة فقد أدرك الصلوة ،،(ابوداؤد (12893)1/553،مستدرك 1/276،بيهقى 2/88).

اولاً : یہ حدیث قائلین رکعت مدرک رکوع کےمدعاپرصریح نہیں ۔

ثانیاً : یہ حدیث صحیح تودرکنار حسن بھی نہیں 

اگرچہ امام ابوداؤد اورحافظ منذری نےاس پرسکوت کیا ہے اورحاکم اورذہبی نےاس کی تصحیح کی ہے، اس کےراوی یحیی ابی سلیمان کوجن پراس حدیث کامدار ہےامام بخاری نےمنکرالحدیث کہا ہے’’  وقال البخارى : كل من قلت فيه منكرالحديث لايحتج به ،وفى لفظ : لا تحل الرواية عنه ،، (فتح المغيث شرح ألفية الحديث للسخاوي 1/773) كيا فرماتے ہیں : وہ بزرگ جوامیرانہ یا آمرآنہ شان سے فرمادیا کرتےہیں ’’القول ماقال البخارى ،، ونیز ابوحاتم نےیحیی مذکور کو’’ مضطرب الحدیث ،، لیس بالقوی ،، کہاہے اور امام بیہقی نےان کےبارےمیں ’’ لیس بالقوی ،، لکھاہے(کتاب معرفۃ السنن )۔

حاکم اورذہبی نےمستدرک مع التلخیص 1؍216 میں ان کی توثیق کی ہےمگر1؍276میں ان کےبارے میں صرف یہ لکھاہے:’’ لم يذكربجرح ،، ان کےاس دوسرے کلام سےمعلوم ہواکہ ان کویحی مذکور کےبارےمیں کسی امام  کی جرح  کاعلم نہیں تھا محض اس بناء پر ان کو ثقہ کہہ دیا ہے ۔ ا س کی تائید ابن خزیمہ کےاس قول سےبھی ہوتی ہے:’’  لاأعرف يحي بن ابى سليمان بعدالة ولاجرح ،، (تهذيب التهذيب 11/ 228 ) ، ابن خزیمہ کےاس قول  سےمعلوم ہواکہ ان کویحیی بن ابی سلیمان کی بابت عدالت وجرح کاعلم نہیں تھا۔اسی طرح حاکم کوبھی ان کےمتعلق کسی امام کی تعدیل وتخریج کاعلم نہیں تھا، اس بناء پران کوثقہ کہہ دیا ۔حالاں کہ ایسا راوی مستوراورمجہول الحال کہلاتا ہےجس کی روایت عندالجمہور مردود ہوتی ہے۔ اورامام الحرمین کےنزدیک متوقف فیہ (شرح نخبۃ ص : 49 ) اور امام ابوحنیفہ وابن  حبان کےنزدیک مقبول والحق مع الجمہور ۔ابن خزیمہ کےشاگرد ابن حبان نےیحیی بن ابی سلیمان کوثقات میں صرف اس وجہ سے ذکر کیاہےکہ استاد کی طرح ان کوبھی  یحیی کی بابت کسی امام کی جرح وتعدیل کا علم نہیں ہوا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ راوی باصطلاح ابن حبان ثقہ ہوا اور جمہور محدثین کےنزدیک مستورومجہول الحال ہواجس کی روایت غیرمقبول ہوتی ہے۔ سخاوی لکھتے ہیں : ’’ قال الحافظ ابن حجر: وإذا لم يكن في الراوي جرحٌ ولا تعديلٌ، وكانَ كلٌ مِنْ شيخهِ، والراوي عنهُ ثقةً، ولم يأتِ بحديثٍ منكرٍ، فهوَ عندهُ ثقةٌ وفي كتابهِ " الثقاتِ           كثيرٌ ممنْ هذه حالهُ، ولأجلِ هذا ربما اعترضَ عليهِ في جعلهم ثقاتٍ من لم يعرفْ اصطلاحه   ولا اعتراضَ عليهِ  فإنَّه لا يشاحح عليهِ في ذلكَ،، (شرح ألفيه 1/ 36) اورلکھتےہیں :’’ ذهب ابن خزيمة إلى أن جهالة العين ترتفع برواية واحد مشهور، وإليه يومى قول تلميذه ابن حبان : العدل من لم يعرف فيه الجرح  ، وإذا التجريح ضد التعديل ، فمن لم يجرح فهو عدل  حتي يتبين جرحه ، إذ  لم يكلف الناس ماغاب عنهم ، وقال فى ضابطة الحديث الذى يحتج به مامحصله ، أنه هو الذى يعرى روايه من ان يكون مجروحا أو فوقه مجروح أو دونه مجروح ، أو كان سنده مرسلا أومنقطعا أو كان المتن منكرا ، فهو مشعر بعدالة من  لم يجره ممن لم يروعنه إلا واحد، ويتايد بقوله فى ثقاته أيوب الأنصارى عن سعيد بن جبير وعنه مهدى بن ميمون لاأدرى من هو ولاابن من  هو؟ فإن هذا منه يؤيدأنه يذكر فى الثقات كل مجهول روى عنه ثقة ولم يجرح ، ولم يكن الحديث الذى يرويه منكرا ،، انتهى (شرح الفيه 1/ 317) دیکھیے ایوب انصاری کوباوجود مستور اورمجہول الحال ہونےکےابن حبان نےثقات میں محض ا س وجہ سے ذکر کردیا کہ ان پرکسی نے جرح نہیں کی ہے۔اسی طرح انہو ں نے اپنی ’’کتاب الثقات ، ، میں بہت سےمستورروایوں کوذکر کردیاہے کیونکہ  ان کےنزدیک عدم جرح نہیں کی ہے ان کےعدل وثقہ ہونے کی خلاف لما ذھب الیہ الجمہور۔ اسی طرح یہاں بھی انہوں نےیحی ین ابی سلیمان کومحض اس بناء پرثقات میں ذکرکیاہےکہ ان کو یحیی کی بابت کسی امام کی جرح کاعلم نہیں ہوسکا، جیسا کہ حاکم کواس کاعلم نہیں ہوا اور انہوں نے ان کی توثیق کردی اورحدیث کوصحیح کہہ دیا ۔

بہرحال ابن حبان کاکسی مستورراوی کاثقات میں ذکرکرنااس امرکی دلیل نہیں ہوسکتا کہ و ہ عندالجمہور بھی ثقہ ہے۔ اس بحث سےیہ بھی واضح ہوگیا کہ حدیث مذکورہ کی حاکم نےتصحیح کی ہے تواس تصحیح کامبنیٰ کیا ہے؟ لہذا ان کی تصحیح مذکورقابل اعتماد نہیں۔رہ گئی ذہبی کی موافقت تواس کامبنیٰ بھی حاکم کاوہی قول ’’ لم يذكربجرح ،، ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہےکہ اس حدیث کی صحت کاحکم مخدوش ہےاسی لیے ابن خزیمہ اس حدیث کوروایت کرنےکےبعد لکھتے ہیں .’’ وفى القلب شئى من هذا الإسناد ، فإنى لاأعرف يحيي بن أبى سليمان بعدالة ولاجرح ، وإنما خرجت خبره لأنه لم يختلف فيه العلماء،، )تهذيب التهذيب 11/228 ) ، یہ ساری بحث اس وقت ہےجبکہ یحیی کی بابت کسی امام کی جرح کاعلم نہ ہو ، لیکن یہاں توامام بخاری، امام ابوحاتم ، امام بیہقی کی جرحین موجود ہیں ،جن کےمقابلے میں متساہلین کی تصحیح وتوثیق جس کامبنیٰ بھی بالکل کمزور ہےکوئی وزن نہیں رکھتی ۔رہ گیا امام ابوداؤد اورحافظ منذری کاسکوت ، تویہ دوسروں پرحجت نہیں ہوسکتا،بالخصوص ایسی حالت میں کہ وہ دونوں بعض ایسی حدیثوں پرسکوت کرجاتےہیں  جن میں مجہول راوی ہوتاہے یاجن کی سند منقطع ہوتی ہے۔امام  بیہقی کےنزدیک  بھی یہ حدیث ضعیف ہی  ہےچنانچہ اس کےروایت کرنے کےبعد مندرجہ ذیل حدیث کےبارےمیں جوقائلین رکعت مدرک رکوع کی صریح دلیل ہےیہ فرماتے  ہیں :’’ وقد روى بإسناد آخر أضعف من ذلك عن أبى  هريرة ،، (2/89).یعنی:حدیث مذکورضعیف ہےاس سے ضعیف ترحدیث ذیل ہے:

(2)  ’’ عن  أبى هريرة مرفوعا : من أدرك ركعة من الصلوة فقد أدركها قبل أن يقيم الإمام صلبه ،، ( ابن خزيمة : 1595)  3/ 45 ، دارقطنى 1/347 بيهقى 1/89 ) .

اس حدیث کاقائلین رکعت مدرک رکوع کےمدعامیں صریح ہونا موقوف ہےاس امرپرکہ ’’ قبل أن يقيم الامام صلبه ، ، اس میں محفوظ غیر مدرج ہولیکن اس کےمحفوظ ہونے میں سخت کلام ہے۔

اس لفظ کےزیادہ کرنے میں یحیی بن حمید متفرد ہیں اور مجہول الحال غیر معتمد فی الحدیث اور ان کی حدیث غیر محتج بہ ہے ( جز القراءۃ للبخاری  ) دار قطنی نےاس کوضعیف کہا ہے،عقیلی نے ان کوضعفاء میں ذکرکیا ہے۔ (لسان 6؍ 250 ) اورابن حبان نےان کوثقات میں اس  لیے ذکر کردیا ہےکہ وہ مستور ہیں اور ان کے ثقات میں ذکر کرنے سےعندالجمہور وہ ثقہ نہیں ہوگئے ۔بہرحال مجہول ہی ہے جن کی روایت  مردود یا متوقف فیہ ہوگی ، نیز اس کی سند میں قرۃ بن عبدالرحمن ہیں جومتکلم فیہ ہیں ’’ قبل أن يقيم الامام صلبه ،،كى مدرج ہونے کاایک یہ قرینہ ہےکہ وہ بےمحل مذکورہے اس کامناسب  محل ’’ فقد ادركها ،، سےپہلے ہے کما لا یخفی ۔ عقیلی کہتے ہیں ’’ قد رواه مالك وغيره من حفاظ اصحاب الزهرى ، ولم يذكروا الزيادة الأخيرة ولعلها كلام الزهرى ،،(لسان 6/ 250 ).

(3) ’’ عن عبدالعزيز بن رفيع عن رجل عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إذا  جئتم والامام راكع فاركعوا وإن كان ساجدافاسجدوا ولا تعتدوا  ولا تعتدوا بالسجود، إذا لم يكن معه الركوع ،، ( بيهقى : 2/89) .

یہ حدیث دوسرے طریق سےبھی مروی ہے جس کےالفاظ یہ ہیں’’ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَسَمِعَ خَفْقَ نَعْلَيْهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: " أَيُّكُمْ دَخَلَ؟ " قَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " وَكَيْفَ وَجَدْتَنَا؟ " قَالَ: سُجُودًا فَسَجَدَتُ قَالَ: " هَكَذَا فَافْعَلُوا إِذَا وَجَدْتُمُوهُ قَائِمًا أَوْ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا أَوْ جَالِسًا فَافْعَلُوا كَمَا تَجِدُونَهُ وَلَا تَعْتَدُّوا بِالسَّجْدَةِ إِذَا لَمْ تُدْرِكُوا الرَّكْعَةَ ،، (بيهقى 2/216 ) یہ حدیث کسی طریق سےقابل عتماد نہیں ہے ، اس لیے کہ رجل یا شیخ انصاری مجہول ہیں کسی طریق میں کوئی ایسا لفظ  نہیں جواس رجل یاشیخ کےصحابی ہونے پریا اس کےاس واقعہ میں موجود رہنے پردلالت کرتاہو ، محض انصار کالفظ صحابیت کی دلیل نہیں ہے۔لہذا اس کے مجہول ہونے کی وجہ سے یہ روایت لائق احتجاج نہیں رہی ۔

(4)’’ عن عبدالرحمن بن عوف مرفوعاً : من أدرك السجود فليسجد ولا يعتدبه ،ومن أدرك الركعة فليركع وليحسب بها، أخرجه الخطيب فى المتفق والمفترق ،، (كنزالعمال 4/ 137 ) اس حدیث کی سند کاحال معلوم نہیں ، اس لیے یہ معرض حتجاج واستدلال یامعرض اعتبار واستشہاد میں نہیں پیش کی جاسکتی ۔سوال کاجواب مختصر عرض کردیا گیا ۔ تفصیل پھر کبھی کی جائےگی ۔ (مصباح بستی ؍اکتوبر1954ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 261

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ