سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) امام کے پیچھے سورۃ الفاتحۃ پڑھنا؟

  • 17177
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 984

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دیوبندی مولوی آیت ’’ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا ،، (الاعراف :204 ) كى روسے امام کےپیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کومنع بتایا ہےکیااس کایہ کہنا صحیح ہے ؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت سےامام کےپیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے پردلیل پکڑنی اپنےمذہب اوراصول اوراقوال علماء حنفیہ سےبےخبری   اورناواقفی پرمنبی ہے۔ احناف کہتےہیں کہ امام کےپیچھے نہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنی چائیے نہ جہری میں ،  اوراس دعوی پراس آیت سےدلیل پکڑتےہیں لیکن مولانا عبدالحئ حنفی لکھتے ہیں کہ : ’’ انصاف کی بات تویہ ہےکہ اس آیت سےسری نمازوں میں مطلقاً اورجہری نمازوں میں امام کےسکتوں میں فاتحہ پڑھنے کی ممانعت قطعاً نہیں ثابت ہوتی ۔،، (امام الکلام ص: 107 ) اسی طرح اورمحققین حنفیہ نےبھی لکھا ہے اورمولوی انورشاہ مرحوم کہتےہیں :’’ وأعلم أن الإنصاف والاستماع يقتصرون على الجهرية ، فإن الإنصاف مقدمة  للإستماع ، ومعناه : التهيؤ للإستماع ،، (فيض البارى 1/ 34 ) آگے چل کر کہتے ہیں : ’’ وقد منى أن الآية تقتصر على الجهرية فقط ، فلا تقوم حجة عليهم فى حق السرية ،،( ايضا 1/ 219 ).

علمائے حنفیہ کےباہمی اختلاف کی یہ کیسی افسوسناک مثال ہے ،ایک کہتا ہےکہ : اس آیت سےدونوں نماز وں میں قرات فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت ہوئی ہے۔دوسرا کہتاہے کہ : اس آیت سےکسی نماز میں بھی ممانعت نہیں ثابت ہو تی۔تیسرا  کہتاہے : صرف جہری میں ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ مفصل اورمبسوط بحث ’’تحقیق الکلام ،، ہردوحصہ میں ملا حظہ کیجیے ۔یہاں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔    (محدث دہلی ج9ش5شعبان 1360ھ؍ستمبر1941 ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 242

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ