سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(427)تصوف اور گنبد نما قبروں کے بارے میں سوال

  • 17026
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 807

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تصوف کی حقیقت کیا ہے؟ کیا تصوف کے کچھ اچھے پہلو اور کچھ برے پہلو ہیں؟ کیا تصوف فقہ سے الگ کوئی چیز ہے؟

(۲)       گزارش ہے کہ مجھے بتائیں کہ صوفیہ کے ہاں الحضرة النبویة کا جو تصور پایا جاتاہے اس کی حقیقت کیا ہے؟

(۳)      ہمارے ہاں سوڈان میں بعض صوفیہ قبر پر گنبد بنانے کی دلیل کے طور پر جناب رسول اللہﷺ کی قبر پر بنے ہوئے گنبد کا ذکر کرتے ہیں۔ دین میں اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)       تصوف سے متعلق سوالات کے بارے میں آپ ابن قیم کی کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ اور عبدالرحمن الوکیل کی کتاب ’’ھذہ ھی الصوفیة‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(۲)       نبیﷺ کے مرقد مبارک پر قبر بنا ہوا ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کی قبروں پر گنبد بنانا جائز ہے۔ کیونکہ نبیﷺ کی قبر پر قبہ آپﷺ کی وصیت سے بنا ہے نہ صحابہ وتابعین یا قرون اولیٰ کے ائمہ کرام میں سے کسی نے بنایا ہے۔ بلکہ یہ کام اہل بدعت نے کیا ہے اور صحیح حدیث میں نبیﷺ کایہ ارشاد روایت ہوا ہے:

(مَنْ أَحْدَثَ فِى أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْه فَھُوَ رَدٌّ)

’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام نکالا جو (دراصل) اس میں سے نہیں‘ وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الہیاج رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

(أَلاَ أَبْعَثُکَ عَلیٰ مَا بَعَثَنِي عَلَیہِ رَسُولُ الله أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَا لاً إلاَّ طَمَسْتَه وَلاَ قَبْراً مُشْرِفاً أِلاَّ سَوَّیْتَه)

’’کیا تمہیں اس کام کے لئے نہ بھیجوں‘ جس کے لئے مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا؟ (میں تمہیں اس لئے بھیج رہا ہوں) کہ تو کوئی تصویر مٹائے بغیر نہ چھوڑ اور کوئی اونچی قبر برابر کئے بغیر نہ رہنے دے۔‘‘

یہ حدیث امام مسلم نے روایت کی ہے۔ چونکہ رسول اللہﷺ سے اپنی قبر پر گنبد بنانا ثابت نہیں‘ نہ ائمہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے‘ بلکہ نبیﷺ سے اس کی تردید ثابت ہے‘ اس لئے اب کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ اہل بدعت کے کئے ہوئے کام یعنی قبر نبوی پر گنبد کی تعمیر کو دلیل بنائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ