سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(352)جس کو قرآن کی دعوت نہیں پہنچی اس کا حکم

  • 16827
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1060

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بدھ مت سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون نے سات سال تک گہرائی سے اسلام کا مطالعہ کیا اور حا ل ہی میں مسلمان ہوگئی‘ آج کل ہوہ بڑی سرگرمی اسلام سے اسلام کی تبلیغ کرر ہی ہے اور متعدد مرد اور عوتوں اس کی تبلیغ سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ ایک بار وہ چند نومسلم افراد کے ساتھ ایک دور دراز علاقے کے تبلیغی دورے پر تھی کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اس سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ غیر مسلموں کو جہنمی کس طرح کہہ سکتے ہیں‘ حالانکہ اس علاقے میں ہم نے آج سے پہلے اسلام کا نام بھی نہیں سنا تھا‘ تو کیا ہمارے باپ دادا جہنمی ہیں؟ اگر مسلمانوں نے ان تک سچا دین نہیں پہنچایا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ اس نو مسلم خاتون نے ہم سے رابطہ کیا اور وہ اس سوال کا جواب چاہتی ہے۔ سوال کرنے والا شخص بعد میں مسلمان ہوگیا تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان غیر مسلم کے جہنمی ہونے کا حکم اسی شرط کے ساتھ لگاتے ہیں کہ ان تک قرآن کی دعوت خود ان کی زبان میں پہنچ چکی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ﴿أُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ... ١٩﴾...لأنعام

’’ہم عذاب نہیں کرتے حتیٰ کہ رسول بھیج دیں۔‘‘

لہٰذا جس غیر مسلم کو اسلام کی دعوت پہنچی ہو او روہ کفر پر اڑا رہے وہ جہنمی ہے۔ اس کی دلیل مذکورہ بالا آیات قرآنی ہیں اور ارشاد نبوی ہے۔

(وَالّذِی نَفْسِی بِیَدِه لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِن ھَذِه الأُمَّة یَھُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُوْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلَتُ أِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اس مت میں سے جس یہودی یا عیسائی کو میرے (مبعوث ہونے کے)متعلق خبر مل جائے پھر وہ اس (دین) کو قبول نہ کرے جو مجھے دے کر مبعوث کیا گیا ہے‘ وہ (منکرشخص) جہنمی ہوگا۔‘‘1

(1 مسند احمدش ج:۲‘ ص:۳۱۷‘ ۳۵۰‘ ج:۴‘ ص:۳۹۶‘ ۳۹۸۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۵۳۔ مستدرک حاکم ج: ۲‘ ص:۳۴۲)

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات او راحادیث موجود ہیں۔ جس شخص کو اس انداز سے اسلام کی دعوت نہیں پہنچ سکی کہ اس پر حجت قائم ہوجائے اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر منحصرہے۔ اس بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے افراد کی آزمائش کی جائے گی۔ جس نے اس وقت اللہ کے احکام کی تعمیل کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے نافرمانی کی‘وہ جہنم میں جائے گا۔ امام بن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے آیت مبارکہ

﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴿١٥﴾...الإسراء کی تفسیر کرتے ہوئے یہ مسئلہ واضح کیا ہے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’طریق الھجرین‘‘ کے آخر میں ’’طبقات المکلفین‘‘ کے عنوان کے تحت اس مسئلہ پر بات کی ہے۔ ہماری رائے میں مزید استفادہ کے لیء ان کتب کا مطالعہ مناسب ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ