سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(299)ہر عملی کفر سے انسان اسلام سے خارج نہیں ہوتا

  • 16756
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے کرام ترک نماز کو’’عملی کفر‘‘ قرار دیتے ہیں اور ’’عملی کفر‘‘ کی وجہ سے کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ إلّا یہ کہ وہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرے جسے علماء نے اس قانون سے مستثنیٰ قر ار دیا ہے۔ مثلاً ذات باری تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنا۔ تو کیا تارک نماز بھی مستثنیٰ ہے؟ اور کیوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر ’’عملی کفر‘‘ کے متعلق یہ نہیں کہا سکتا کہ اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جن سے انسان دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے اور وہ ایسے اعمال ہیں جن سے دین کی توہین اور بے حرمتی ظاہر ہوتی ہے مثلاً قرآن مجید پر پاؤں رکھ دینا یا اللہ تعالیٰ کے کسی رسل کو گالی دینا جب کہ اسے معلوم ہو کہ وہ اللہ کا رسول ہے‘ یا کسی کو اللہ کا بیٹا قرار دینا‘ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا‘ یا غیراللہ کے لئے جانور ذبح کرنا۔ فرض نمازیں سستی کی وجہ سے ترک کردینا بھی اسی قسم کے اعمال میں آتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

(الْعَھْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ الصَّلَاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ) (سنن ترمذی رقم ۲۶۲۳، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ رقم ۱۰۷۹، مسند احمد، ۵/ ۳۴۶، مستدرک الحاکم۷/۱ سنن الدرامی، السنن الکبری للبيهقی ۳/ ۳۶۶، مصنف ابن ابی شبیة۳۴/۱۱ وصحیح ابن جبان رقم ۱۴۵۴)

’’ہمارے او ران کے درمیان عہد نماز ہی ہے (یعنی نماز ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاں قبیلہ کے لوگ مسلمان ہیں۔ اس لئے انہیں مسلمانوں والے حقوق دئیے جاتے ہیں) اور جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا‘‘

اس حدیث کو امام احمد‘ ترمذی‘ ابو داؤد‘ نسائی اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت یزید بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ نبیﷺ نے فرمایا:

(بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفُرِ والشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاة) (صحیح مسلم)

’’بندے اور کفروشرک کے درمیان حد فاصل ترک نماز ہے۔‘‘

(یعنی بندہ ترک نماز کی وجہ سے کفروشرک سے جاملتا ہے۔ بندے اور کفر کو ملانے والا رابطہ ترک نماز ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ