سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182)ایک شخص نے اپنی بیٹی دوسرے کو بیاہ دی اور اس کے عوض اس کی بہن یا بیٹی سے شادی کر لی اور حق مہر کسی کو بھی نہ دیا گیا اس بارے میں کیا حکم ہے؟

  • 16537
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 624

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک شخص نے اپنی بیٹی دوسرے شخص کو بیاہ دی کہ اس کے عوض دوسرا شخص اپنی بیٹی یا بہن پہلے سے بیاہ دے گا اور ان لڑکیوں میں سے کسی کو بھی علامتی مہر نہ دیا گیا۔ کیا اس طرح ایک لڑکی کی دوسری لڑکی کے مقابل شادی جائز ہے۔ یا یہ ضروری ہے کہ ان دونوں کے درمیان علامتی حق مہر مقرر ہو؟ (س۔ ع۔ المالکی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹی یا اپنی بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کے زیر ولایت ہو اس شرط پر بیاہ دے کہ دوسرا شخص یا اس کا بیٹا اپنی بیٹی یا اپنی بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کے زیر ولایت ہو بیا دے گا۔ کیونکہ نبیﷺ نے اس سے منع فرمایا اور اس کا نام شغار رکھا ہے اور بعض لوگوں نے اس کا نام نکاح بدل رکھا ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس میں مہر کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے مہر کا ذکر نہیں کیا جو اس بات پر دلیل ہے کہ یہ نہی دونوں صورتوں میں ایسے سب نکاحوں کو عام ہے۔ اور علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول یہی ہے اور مسند اور سنن ابوداؤد میں سند جید کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امیر مدینہ نے آپ کو دو آدمیوں کے بارے میں لکھا کہ انہوں نے نکاح شغار کیا ہے اور دونوں نکاحوں میں مہر کا نام بھی لیا ہے۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے امیر مدینہ کو جواب لکھا اور اسے حکم دیا کہ ان دونوں نکاحوں میں جدائی کر دی جائے اور کہا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا تھا۔ اور اس لیے بھی کہ یہ شرط ان کے ولیوں کی طرف سے عورتوں پر ظلم کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ انہیں ایسی بات پر مجبور کرتے ہیں جو عورتوں کو ناپسند ہوتی ہے۔ انہوں نے ان عورتوں کو فروختنی مال بنا رکھا ہے۔ اپنی رغبت اور اپنی مصلحتوں کے مطابق جیسے چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں اور لوگ فی الواقع ایسا کچھ ہی کرتے ہیں مگر جسے اللہ چاہے (تو بچا لے)۔

البتہ جو شغار کی تفسیر کے بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے کہ نکاح شغاریہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی اس شرط پر دوسرے کو بیاہ دے کہ وہ اپنی بیٹی اسے بیاہ دے گا اور ان دونوں کا مہر نہ ہو تو یہ نافع کا کلام ہے، نبیﷺ کا کلام نہیں اور نبیﷺ کی شغار سے متعلق تفسیر بہرحال نافع کی تفسیر پر مقدم ہے۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ