سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176)وراثت کے حوالہ سے ایک فرضی مسئلہ کی تقسیم

  • 16531
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 630

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک شخص مر گیا اور باپ، ایک بیٹی، ایک حقیقی بھائی، ایک حقیقی بہن اور چند پدری بھائی چھوڑ گیا، اس کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟ (عبداللہ۱۔ حائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:… ترکہ دو حصوں میں تقسیم ہوگا۔ آدھا بیٹی کے لیے فرضی حصہ اور آدھا باپ کے لیے فرضی اور تنصیصی (حصہ فرضی اور باقی بطور عصبہ) اور بہن بھائیوں کے لیے کچھ نہیں۔ کیونکہ وہ اہل علم کے اجماع کی رو سے باپ کی موجودگی میں محروم ہیں۔ لیکن اگر متوفی کے ذمہ قرضہ ثابت ہو تو ورثہ کی تقسیم سے پیشتر اس کی ادائیگی کی جائے گی۔ پھر جو کچھ بچ رہے، وہ مذکورہ وارثوں میں تقسیم ہوگا۔

اسی طرح اگر میت نے کوئی شرعی وصیت کی ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی یا اس سے کم ہو تو ورثاء میں ورثہ کی تقسیم سے پیشتر ترکہ سے اس کا نکالنا بھی واجب ہے۔ میت کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اور اس نے زیادہ کی وصیت کی ہو تو وہ صرف مکلف اور نیک ورثاء کی رضا مندی سے ہی نافذ ہو سکتی ہے۔ ورنہ زائد حصہ نافذ نہ ہوگا اور وارثوں میں تقسیم سے قبل قرضہ اور وصیت کی ادائیگی پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚمِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ...١١﴾...النساء

’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔… تا آنکہ فرمایا… یہ تقسیم وصیت کے بعد ہوگی جو میت نے کی ہو۔ یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ