سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(192) مدرک الرکوع مدرک الرکعۃ نہیں..؟

  • 1648
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2265

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اب تک ہمارا نظریہ یہ قائم ہوا تھا کہ مدرک الرکوع مدرک الرکعۃ نہیں ہے لیکن اب ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل میں ایک حدیث نظر میں آئی اس کے وجہ سے پھر میرے ذہن میں شک پیدا ہوا ہے وہ حدیث یہ آئی ہے:

«عَنْ عَبْدِ الْعزیز بن رُفَیْعٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اِذَا جِئْتُمْ وَالاِمَامُ رَاکِعٌ فَارْکَعُوْا ، وَاِنْ کَانَ سَاجِدًا فَاسْجُدُوْا ، وَلاَ تَعْتَدُّوْا بِالسُّجُوْدِ اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہُ الرُّکُوْع»

  اس حدیث کے بارے میں البانی نے کہا ہے رجالہ کلہم ثقات اور پھر ابن مسعود، عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، عبداللہ بن الزبیر ، ابوبکر الصدیق ،رضی اللہ عنہما کے آثار بھی پیش کیے ہیں یعنی اس حدیث کے لیے یہ تمام آثار قوی ہیں ۔ آخر میں البانی کہتا ہے کہ دَلَّتْ ہٰذِہِ الاثَارُ الصَّحِیْحَة عَلٰی اَمْرَیْنِ اَلاَوَّلُ اَنَّ الرَکْعَةَ تُدْرَکُ بِاِدْرَاکِ الرَکُوْعِ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

شیخ البانی حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ  نے إرواء الغلیل ج۲ ص۲۶۰ پر رقم ۴۹۶ میں منار السبیل کے صفحہ ۱۱۹ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث دو لفظوں کے ساتھ نقل فرمائی ہے۔

(۱) ومن أدرک رکعة فقد أدرک الصلاة (۲) من أدرک الرکوع فقد أدرک الرکعة۔ اب ظاہر بات ہے کہ دوسرے لفظ مطلوب ’’مدرک رکوع مدرک رکعت ہے‘‘ پر دلالت تو کرتے ہیں مگر یہ لفظ بے اصل ہیں

چنانچہ شیخ البانی  حفظہ اللہ تعالیٰ ہی لکھتے ہیں ’’وأما اللفظ الآخر الذی ذکرہ المؤلف وعزاہ لأبی داود فلا أعلم لہ أصلا ، لا عند أبی داود ولا عند غیرہ‘‘(ارواء الغليل ص266 ج 2)رہے پہلے لفظ تو

اولاً :  تو وہ اس سیاق میں ثابت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی ہیں جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے چنانچہ شیخ البانی صاحب  حفظہ اللہ تعالیٰ  امام حاکم کا فیصلہ  ’’صحیح الاسناد یحییٰ بن ابی سلیمان من ثقات المصریین‘‘ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’قلت : ووافقہ الذہبی والصواب ما أشار إلیہ البیہقی أنہ ضعیف لأن یحیی ہذا لم یوثقہ غیر ابن حبان والحاکم ، بل قال البخاری : منکر الحدیث ۔ وقال أبو حاتم : مضطرب الحدیث ، لیس بالقوی ، یکتب حدیثہ‘‘ (ارواء الغليل ص261ج2)تو شیخ صاحب نے اعتراف فرمایا ہے کہ یہ حدیث اس سیاق کے ساتھ ضعیف ہے مگر وہ اس سے قبل اس کو صحیح قرار دے چکے ہیں بدلیل تعدد طرق حالانکہ تعدد طرق سے حدیث کا صحیح یا حسن بن جانا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ بسا اوقات تعدد طرق سے حدیث کے ضعف میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں تو اس مقام پر تعدد طرق اس حدیث کو حسن بھی نہیں بناتا چہ جائیکہ اس کو صحیح بنائے کیونکہ جو طرق شیخ صاحب نے اس مقام پر ذکر فرمائے ہیں ان میں سے کچھ تو موقوف ہیں اور کچھ مرفوع ۔ جو موقوف ہیں وہ تو مقوی مرفوع نہیں کیونکہ اصول حدیث میں وضاحت سے لکھا گیا ہے کہ کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے موافق آ جائے تو وہ حدیث کے ثابت ہونے کی دلیل نہیں اسی طرح کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے خلاف آ جائے تو وہ حدیث کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں لہٰذا آثار موقوفہ سے حدیث کو تقویت پہنچانے والی بات تو کافور ہو گئی۔ رہے مرفوع طرق تو ان میں سے ایک کے متعلق تو خود شیخ صاحب نے صراحت فرما دی ہے کہ وہ شاہد بننے کے قابل نہیں ۔ باقی صرف دو مرفوع طریق رہ جاتے ہیں جن سے تقویت کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے ان دو میں سے بھی ایک کے متعلق خود شیخ صاحب لکھتے ہیں ’’ولم یذکر أحد منہم ہذہ اللفظة ’’قبل أن یقیم الإمام صلبه‘‘ ولعل هذا من کلام الزہری فأدخله یحیی بن حمید فی الحدیث ولم یبینه‘‘ پھر اس یحییٰ کو دار قطنی نے ضعیف بھی کہا ہے تو اس سے بھی تقویت حاصل نہ ہو سکی باقی صرف ایک مرفوع طریق رہ گیا عبدالعزیز بن رفیع والا جس کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں ’’وهو شاہد قوی فإن رجاله کلهم ثقات‘‘ مگر یہ واقع میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث کا شاہد ہے ہی نہیں کیونکہ شاہد اور مالہ شاہد کا ایک چیز پر دلالت کرنا ضروری ہے جب کہ اس مقام پر صورت حال اس طرح نہیں کیونکہ شاہد بزعمہ کے لفظ میں ’’إِذَا جِئتم والإمام راکع فارکعوا وإن کان ساجدا فاسجدوا ولا تعتدُّوا بالسجود إذا لم یکن معه الرکوع‘‘  اس سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے ساتھ جب رکوع نہ ہو تو سجدہ ناقابل اعتداد ہے اس شاہد بزعمہ میں یہ بالکل نہیں ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت ہے نہ منطوقاً اور نہ ہی مفہوماً ۔ تو شیخ صاحب کا عبدالعزیز بن رفیع والے اس طریق کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا شاہد بنانا درست نہیں۔ چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ شاہد ہے مگر شیخ صاحب کا اس کو قوی قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ قوی ہونے کی انہوں نے جو دلیل پیش فرمائی ہے وہ یہ ہے ’’فإن رجاله کلهم ثقات‘‘  حالانکہ اس کے تمام رجال ثقات نہیں کیونکہ عبدالعزیز بن رفیع اور نبی کریمﷺ کے درمیان ’’رجل‘‘ کا واسطہ ہے جس کا صحابی ہونا ثابت نہیں تو لا محالہ وہ تابعی ہے یا تبع تابعی کیونکہ تابعی بسا اوقات تبع تابعی سے بھی روایت کر لیتا ہے جیسے صحابی بسا اوقات تابعی سے روایت کر لیتا ہے تو بہرحال یہ ’’رجل‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی مجہول ہے تو شیخ صاحب کا ’’رجاله کلهم ثقات‘‘ کہنا ان کی محض خوش فہمی ہے ۔ چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ’’رجل‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی ہے ثقہ تو یہ روایت ’’رجل‘‘ کے تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت مرسل اور تبع تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت معضل ٹھہری اور مرسل ومعضل دونوں ضعیف ہیں لہٰذا شیخ صاحب کا اس کو قوی کہنا درست نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے اعم اغلب کے تحت عبدالعزیز بن رفیع والی مرسل اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی موصول ضعیف دونوں مل کر حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں تو جواب میں ہم عرض کریں گے برسبیل تنزل اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں تو بھی یہ حسن لغیرہ بنے گی نہ کہ حسن لذاتہ ، نہ صحیح لغیرہ اور نہ ہی صحیح لذاتہ جب کہ شیخ صاحب اس کو صحیح لکھ رہے ہیں تو بہرحال شیخ صاحب کا یہ فیصلہ افراط سے خالی نہیں ۔ اگر کہا جائے کہ حسن لغیرہ تو آپ بھی تسلیم کر گئے ہیں گو برسبیل تنزل ہی سہی اور حسن لغیرہ سے بھی تو احکام ثابت ہو جاتے ہیں تو شیخ صاحب کا بیان کردہ مسئلہ تو درست ٹھہرا تو ہم جواباً عرض کریں گے نہیں ہر گز نہیں تفصیل ثانیا کے بعد دیکھیں ۔

ثانیا آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ عبدالعزیز بن رفیع والی روایت مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ وسجود کے قابل اعتداد ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے رکوع کے بغیر سجود کاکوئی اعتداد وشمار نہیں اب یہ بھی یاد رکھیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ’’فاسجدوا ولا تعدوها شیئا ، ومن أدرک رکعة فقد أدرک الصلاة‘‘ کی بھی مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے پر دلالت نہیں نہ منطوقا اور نہ مفہوماً اس کا مدلول تو صرف اور صرف یہ ہے جس نے رکعت پا لی اس نے نماز پالی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے رکعت سے کم کو پایا اس نے نماز کو نہیں پایا اور مدرک رکوع رکعت سے کم کو پانے والا ہے جیسے سجدے کو پانے والا لہٰذا اس کو نماز پانے والا قرار نہیں دیا جا سکتا دیکھئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں چنانچہ ان کے لفظ ہیں ’’لا یجزئک إلا أن تدرک الإمام قائما‘‘  ان لفظوں کے متعلق شیخ صاحب خود لکھتے ہیں ’’فقد ثبت هذا عن أبی هریرة لتصریح ابن إسحاق بالتحدیث فزالت شبهة تدلیسه‘‘ (ارواء الغليل ص265ج2)اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اس مرفوع حدیث میں لفظ ’’رکعة‘‘ سے مراد رکوع ہے تو ہم جواباً گذارش کریں گے رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے حقیقت نہیں وَالْأَصْلُ أَنْ یُحْمَلَ اللَّفْظُ عَلَی الْحَقِیْقَةِ ، وَلاَ قَرِیْنَةَ ہٰہُنَا تَمْنَعُ أَنْ یُحْمَلَ اللَّفْظُ عَلٰی حَقِیْقَتِهِ وَکَوْنُ لَفْظِ ’’رَکْعَة‘‘ ہٰہُنَا بَعْدَ قَوْلِهِ ﷺ ’’فَاسْجُدُوْا‘‘ لَیْسَ مِنَ الْقَرِیْنَةِ فِيْ شَیْئٍ لِضُعْفِ دَلاَلَةِ الْاِقْتِرَانِ فَہٰذَا الْحَدِیْثُ یَدُلُّ بِالْمَنْطُوْقِ عَلٰی أَنَّ مُدْرِکَ السَّجْدَةِ لَیْسَ بِمُدْرِکٍ لِلرَّکْعَةِ وَأَنَّ مُدْرِکَ الرَّکْعَةِ مُدْرِکٌ لِلصَّلاَةِ ، وَیَدُلُّ بِالْمَفْہُوْمِ أَنَّ مُدْرِکَ مَا دُوْنَ الرَّکْعَةِ کَمُدْرِکِ الرُّکُوْعِ مَثَلاً لَیْسَ بِمُدْرِکٍ لِلصَّلاَةِ۔

باقی رہی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حدیث ’’إن ذلک من السنة‘‘  تو وہ صف کے پیچھے دور رکوع کر کے صف میں شامل ہونے کے متعلق ہے مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے کے متعلق نہیں جیسا کہ شیخ صاحب کی إرواء الغلیل میں تقریر سے واضح ہے لہٰذا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو مدرک رکوع کے مدرک رکعت ہونے کی دلیل بنانا درست نہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 166

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ