سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84)نماز میں حرکت کرنا

  • 16351
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1802

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری مشکل یہ ہے کہ میں نماز میں زیادہ حرکتیں کرتا ہوں۔ جبکہ میں نے اس معنی میں ایک حدیث سنی ہے کہ نماز میں تین سے زیادہ حرکات نماز کو باطل کر دیتی ہیں… اس حدیث کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور میں نماز میں کس طرح ان فضول حرکتوں سے نجات حاصل کروں؟

عادل ۔ م۔ا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز کے سلسلے میں مستعد رہے اور نماز میں ڈرنے کے اثرات اس کے دل اور بدن میں ظاہر ہوں۔ خواہ یہ فرض نماز ہو یا نفل ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾...النور

’’وہ مومن فلاں پا گئے جو اپنی نماز میں ڈرنے والے ہیں۔‘‘

اس پر لازم ہے کہ نماز اطمینان کے ساتھ ادا کرے اور یہ بات نماز کے ارکان وفرائض میں سے ہے کیونکہ جس شخص نے نماز کو بگاڑ کر ادا کیا اور اطمینان حاصل نہ کیا اسے نبیﷺ نے فرمایا:

((ارجِعْ فصلِّ، فاِنَّک لمْ تصلِّ))

’’واپس لوٹ آؤ اور نماز ادا کرو۔ کیونکہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔‘‘

تین بار اس نے آپ کے یہی بات کہنے پر نماز پڑھی۔ پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا مجھے سکھلا دیجئے۔ نبیﷺ نے اسے فرمایا:

((إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلٰوة فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَآئِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِکَ فِی صَلٰوتِکَ کُلِّہَا))

’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اچھی طرح اور پوری طرح وضو کرو پھر قبلہ رخ ہو جاؤ، پھر تکبیر کہو پھر جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو، پڑھو۔ پھر ایسے رکوع کرو کہ تمہیں اپنے رکوع پر اطمینان ہو۔ پھر سر اٹھاؤ اور پوری طرح سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر ایسے سجدہ کرو کہ تمہیں اپنے سجدہ پر اطمینان ہو پھر سجدہ سے اٹھو اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ پھر سجدہ کرو جس پر تم مطمئن ہو جاؤ۔ پھر اپنی پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔‘‘

اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’پھر ام القرآن (سورئہ فاتحہ) پڑھو اور مزید جو اللہ چاہے۔‘‘

یہ حدیث صحیح ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اطمینان حاصل کرنا نماز کا رکن اور اس کا بہت بڑا فرض ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اور جو شخص ٹھونگیں مارے (جلدی جلدی نمازپڑھے) اس کی نماز نہیں ہوتی اور خشوع نماز کا خلاصہ اور اس کی روح ہے۔ لہٰذا مومن کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے اور اس پر حریص ہو۔

رہی اطمینان اور خشوع کے منافی تین حرکات کی حد بندی کی بات، تو یہ نبیﷺ کی حدیث نہیں۔ یہ صرف کسی عالم کا کلام ہے جس کے لیے کوئی ایسی دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔

تاہم نماز میں فضول حرکتیں کرنا مکروہ ہے۔ جیسے ناک، داڑھی اور کپڑوں کو حرکت دینا اور ان کاموں میں لگے رہنا اور جب ایسی فضول حرکات زیادہ اور متواتر ہوں تو نماز کو باطل کر دیتی ہیں… لیکن اگر حرکات تھوڑی اور معمولی سی ہوں یا اگر زیادہ ہوں اور متواتر نہ ہوں تو ان سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ لیکن مومن کے لیے مشروع یہی ہے کہ وہ خشوع پر محافظت کرے اور نماز کو اچھی طرح مکمل کرنے کی حرص رکھتے ہوئے فضول حرکات چھوڑ دے، خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ۔

اور اس بات پر دلائل موجود ہیں کہ نماز میں تھوڑا عمل یا تھوڑی حرکات سے نماز باطل نہیں ہوتی اسی طرح متفرق اور کبھی کبھار کی حرکات سے بھی نماز باطل نہیں ہوتی۔ چنانچہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ ’’آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ ’’آپﷺ ایک دن لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ (امام تھے) اور اپنی بیٹی زینب کی بیٹی امامہ کو اٹھائے ہوئے تھے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ