سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21)مسجد حرام میں سو جانے کے بعد بغیر وضو کئے نمازپڑھنا

  • 16164
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 813

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسجد حرام میں مثال کے طور پر ظہر اور عصر سے پہلے سوجاتے ہیں ۔ پھر جب لوگوں کو خبردار کرنے والا انہیں جگانے آتا ہے تو وہ وضوکیے بغیر ہی نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہی صورت بعض عورتوں کی بھی ہوتی ہے اس کے حکم سے ہمیں مستفید فرمایئے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیند ناقص وضو ہے ، جبکہ گہری ہو اور شعور کو زائل کر دے۔ جیساکہ جلیل القدر صحابی صفوثان بن عسال المرادی﷜ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہجب ہم مسافر ہوں تو ماسوائے جنابت تین دن راب تک اپنے موزے نہ اتاریں ۔ بول وبراز اور نیند سے اتارنے کی ضرورت نہیں۔ اسے نسائی اور ترمذی نے نکالا۔ اور اس حدیث کے الفاظ ترمذی کے ہیں اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔

اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

((العیںٌ وِکَائُ السَّه، فإذا نامتِ الْعَینَانُ اِسْیطلقَ الوِکائُ۔))

’’ آنکھ سرین کا سربند ہے ۔ جب آنکھیں سوجاتی ہیں تو سر بند ڈھیلا پڑجاتا ہے‘‘

اسے احمد اورطبرانی نے روایت کیااور اس کی سند میںضعیف ہے لیکن اس کے شواہد ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں جیسے صفوان والی حدیث مذکورہ بالا۔ اس لحاظ سے یہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو مرد  عورت مسجد حرام میں یاکسی بھی جگہ سواجائے تواس سے اس کی طہارت ٹوٹ جاتی اور اس پر وضو کرنا لازم ہے۰ پھر اگر وہ بلاوضو نماز ادا کرے تواس کی نماز درست نہ ہوگی۔ اور وضو شرعی یہ ہے کہ منہ دھویا جائے کلی کی جائے اور ناک کو جھاڑا جائے اور ہاتھوں کوکہنیوں تک دھویا جائے اورکانوں سمیت سرکا مسح کیا جائے اور پائوں کو ٹخنوں تک دھویا جائے اور نیند اور د وسری صورتوں مثلا ہو اخارج اور شرمگاہج کو چھونا اور اونٹ کا گوشت کھانا وغیرہ میں استنجا کرنے کی ضرورت نہیں استنجایا ڈھیلوں سے صفائی وضو سے قبل اور صرف بول وبراز کی صورت میںواجب ہوتی ہے یا ایسی صورتوں میںجو بول براز میں ہوں۔

رہی اونگھ تویہ ناقص وضو نہیں ۔ کیونکہ اس سے شعور زائل نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر اس باب میں وارد احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے ۔ 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ