سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19)بغير وضو كئے جرابوں پر مسح کرنا

  • 16162
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 834

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے فجر کی نماز کے لئے وضو کی اور نماز پڑھی اور جرابیں پہننا بھول گی ااور نماز کے بعد سوگیا پھر جب میں اپنے کام پر جانے کے لیے بیدار ہوا تو اسی حالت میں جرابیں پہن لی۔ جب ظہر کا وقت آیا تو میں نے وضو کی اور جرابوں پر مسح کر لیا اور نماز ادا کی۔ اسی طرح میں نے عصر ، مغرب او رعشاء ادا کی ۔ دل میں یہی بات تھی کہ میں نے جرابیں طہارت کے وقت پہنی ہیں ۔

یہ بات مجھے یاد ہی نہ رہی تھی کہ میںنے انہیں بلاوضو پہنا تھا۔ عشاء سے تقریبا دو گھنٹہ بعد یہ بات یاد آئی۔ اب میری ان چاروں اوقات کی نماز کے متعلق کیا حکم ہے۔ آیا وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ یہ خیال رہے کہومیں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔

س۔ع۔غ۔ حائل


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس نے بلا طہارت موزے اورجرابیں پہنی ، پھر ان پر مسح کر کے بھول کر نماز اد ا کی توا س کی نماز باطل ہے اور جتنی نمازیں اس نے اس مسح سے ادا کیں اس پر سب کا اعادہ لازم ہے کیونکہ اہل علم کے اجماع کے مطابق مسح کی صحت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جراب طہارت کے وقت پہنی جائے اور جس نے انہیں بلاطہارت پہنا، پھر اس پر مسح کیا تو ا س کا حکم بلاطہارت نماز ادا کرنے والے کا حکم ہے اور نبی ﷺنے فرمایا ہے:

((دَعْهما، فإنیَّ أَدْخلتُھما طَاہِرتَیْن،فمََسَحَ علیھِما۔))

’’انہیں چھوڑ دو۔ میں نے پاکیزگی کی حالت میں پائوں داخل کئے تھے پھر آپ ﷺ نے ان پر مسح کیا ‘‘

اے سائل ! ان دلائل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ پر چاروں نمازیں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء کا اعادہ ضروری ہے اور بھول کی وجہ سے آپ پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قول کے مطابق:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ...﴿٢٨٦﴾...البقرة

’’ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کریںتو ہمارا مواخذہ نہ کرنا‘‘    

نبیﷺ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قدفعلت (میں نے ایسا ہی کیا) جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہو کچھ بندوں سے ازراہ خطاو نسیان واقع ہو جائے اس پر موخذہ نہ کرنے سے متعلق بندوں کی دعا کو اللہ سبحانہ نے قبول فر مالیا ہے۔ پس اس بات پر حمد اور شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ