سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110)نماز ، اذان ،خطبہ ، جمعہ وعیدین میں آلہ مکبرالصوت کا استعمال

  • 16099
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1356

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسالہ ’’محدث ،، دہلی بابت ماہ دسمبر 1940 ء مطابق ماہ شوال المکرّم 1359ھ میں بذیل فتاویٰ سب سے آخر میں یہ سوال درج ہےکہ آلہ آواز جس کو انگریزی میں لاؤڈ اسپیکر کہتے ہیں ، جامع مسجد وعیدین ومجالس وعظ و خطبہ میں استعمال کرناجائز ہےیانہیں ؟ اس کےجواب  میں فتویٰ  صاف اثبات میں دے کر وضاحت کےساتھ لکھاہے کہ عام مذہبی یاعلمی  جلسوں کی طرح اذان میں مؤذن کی آواز اورعیدین  اورجمعہ  کےموقع پرنماز میں امام کی آواز دور کےتمام مقتدیوں تک ،اور خطبہ میں خطیب کےآواز دور کےلوگ تک پہنچانے کے لیےلاؤڈ اسپیکر (آلہ مکبرالصوت ) کااستعمال ،اور اس کوامام اورمؤذن وخطیب کےسامنے رکھنا جائز اورمباح ہے۔ایسی ضرورت کے وقت اس آلہ کےاستعمال میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے، اوراذان نماز وخطبہ جمعہ وعیدین کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔

تو اوّل : تواس میں کوئی دلیل یاسند قرآن  وحدیث سےنہیں دی گئی ،جس سےمعلوم ہوتاہےمحض ذاتی اجتہاد اورقیاس رائے سےکام لیا گیا ہے۔

دوسرے: امام یامؤذن وغیرہ کےلیے اس آلہ نشرالصوت کوآگے پیچھے سرکانےاورمنہ کےپاس لگائےرکھنے ،اور پھر رکوع وسجود وغیرہ میں اس کےسامنے سےہٹانے اورپھرقیام کےصورت میں اس کوواپس اپنے منہ کےسامنےلاکررکھنے میں ایک لہوولعب اور خلل کی  صورت پیدا ہونا ظاہر ہے۔

تیسرا : نماز وغیرہ میں جب مکبروں  سےاس قسم کی حاجت پوری ہوجاتی ہے یا ہوسکتی ہے،تو اس بدعت کی تجویز کیاضرور ی ہے،اورمشابہت وتقلید مغربیت کیوں روارکھی جائے ؟  ( محمد سلیمان بردوان ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز اور اذان وخطبہ  جمعہ وعیدین میں آلہ مکبرالصوت کےاستعمال کےجوازوالےفتویٰ  پرآپ نےتین شبہے پیش کیےہیں :

(1)  قرآن وحدیث سےاس کےجواز پرکوئی دلیل نہیں پیش کی گئی صرف اجتہادوقیاس اور رائے سےکام لیاگیاہے۔

(2)   جس ضروت سےاس آلہ کونماز وغیرہ میں استعمال کیاجاتاہےوہ ضرورت مزید مکبروں سےپور ی ہوجاتی ہےتواس بدعت  یک تجویز کی کی ضرورت

ہے درآن حالیکہ اس میں تشبہ وتقلید مغربیت بھی ہے۔

(3)   نماز کی حالت میں اس آلہ کوسرکانے او رہٹانے یاقریب کرنے سےنمازمیں

خلل اورلہوولعب کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔آپ اگر ذیل کی چند امور پرغورکریں تویہ تینوں شبہے خودبخود دورہوجائیں گے، اورآلہ کےجواز میں کوئی تردد اورشبہ باقی نہیں رہےگا۔اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ ہرجزئی اورہرنئے حادثہ کاحکم صراحتاً قرآن وحدیث میں مل جائے ،تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی ،کتاب وسنت میں انہیں اموروحوادث کےشرعی احکام  صراحتاً ونصا مل سکتے ہیں ۔ جوعہد رسالت میں پیش آئے اورجونئے واقعات  اورجدید  حوادث آنحضرت ﷺ کےبعد پیش آئے۔ان کےمتعلق  شریعت میں کوئی صریح حکم نہیں مل سکتا ، اگر ایسا ہوکہ ہرپیش آنے والی جزئی اورنئے حادثہ کا حکم منصوص ہو،تو پھر اجتہاد وقیاس اورفقہ کاوجود نہیں ہوتااورنہ اس  کی ضرورت ہوتی ، ونیز حضرت معاذ ﷜ کویمن بھیجنے کےوقت آنحضرتﷺکے یہ دریافت کرنے پرکہ اگر کتاب وسنت میں تم کوفیصلہ  نہ ملے توکیا کروگے؟ ان کایہ کہنا ’’ اجتہدبرائی ،، فضول اورعبث ہوجاتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کےارتحال کےبعد پیش آنے والے امور وحوادث کےاحکام،اصول  وکلیات ،عموم اطلاق سےاخذکیے جاسکتےہیں ۔چنانچہ عہدنبوی کےبعد نئے نئے پیش آنے والے حوادث پرصحابہ کرام ، تابعین عظام ، مجتہدین امت جواحکام لگائے ہیں ،وہ اسی  طرح اصول وکلیات وغیرہ سےمسنبط کیےگئے ہیں ،نہ کہ وہ قرآن وحدیث میں منصوص ومصر ح تھے۔اب اگرکوئی ایساحادثہ سامنے  آئے جوان بزرگان دین کےزمانے میں نہیں پیش آیا تھا،یاکوئی ایسی نئی چیز ہمارے سامنے آئے جواس زمانے میں تھی ہی نہیں ، توا سکےمتعلق یہ خیال کرنا کہ قرآن وحدیث میں اس کاحکم صراحتاً  مل جائے گا، یا سلف کےاحکام مستنبطہ اورفتاویٰ میں اس حکم کاتلاش،خبط کےسوا کچھ نہ ہوگا۔ایسی چیز اورایسے ہرحادثہ کےلیے علماء زمانہ کواسی طرح قرآن وسنت  میں بیان کردہ اصول کلیات ،عمومات واطلاقات سے کام لینا پڑے گا، جس طرح صحابہ کرام اورائمہ نےاپنے زمانہ میں لیا تھا ۔

اکثر لوگ یہ سمجھتےہیں کہ جو چیز آن حضر ت ﷺ یاصحابہ کرام اوربدرجہ تنزل ائمہ مجتہدین کےزمانہ میں موجود نہیں تھیں  اوراب پائی گئی۔ اس کا استعمال بدعت اورمحدث ہے، لیکن بدعت کی یہ تعبیر نہایت گمراہ کن ہے۔ بدعت دراصل اس نئے امر یانئی چیز کو کہتےہیں جس کی اصل شریعت میں نےملے ، نہ نصا نہ استنباطاً واستخراجاً،اوراس کودین ومذہب یاکارثواب سمجھ کرکیا جائے اورساتھ ہی وہ  دین کےساتھ  ملتبس بھی ہو، اگر اس نئی چیز کی اصل قرآن یاحدیث میں بہ استنباط صحیح موجود ہےتو اس کوبدعت نہیں کہاجاسکتا۔

اللہ تعالیٰ نےحضرت آدم ﷤  سےلے کر اب تک جتنے انبیاء ورسل مبعوث فرمائےاوران کےذریعہ شریعتیں بھیجیں ،ان کےارسال وبعثت ایک مقصد تھاکہ وہ  اپنی قوموں  اورامتوں کوساری دنیاوی اسباب سے مستفید ہونے کےصحیح طریقے بتائیں۔ان پیغمبروں نےخود ان اسباب سےفائدہ اٹھایا اور یہ بتاگئے کہ ان سےکس طرح صحیح کام لیا جاسکتا ہےاوران کوکیوں کرااستعمال کیا جاسکتا ہے۔

آں حضرت ﷺ نےمحاصرہ طائف کےموقع پرسنگ  باری کرنے کےلیے ’’منجنیق،،سےکام لیا ، اورصحابہ نے’’ دبانہ ،، و ’’ صنبورہ ،، استعمال کیا۔آں حضرت ﷺ  نےسلمان فارسی ﷜ کےمشورہ سے جنگ احزاب کےموقع پر’’خندق ،، کھودوائی جوعجمی طریقہ مدافعت تھا۔ غرض اس طرح ہم کوبتائے گئے نت نئے اسباب عالم کوکیوں کراسلامی طریقہ پربرت سکتےہیں ۔

عہد رسالت کےبعد صحابہ کرام نےہمیشہ اس ضابطہ کوپیش نظر رکھا اورہم کواس ضابطہ پرعمل کرنے کاراستہ بتاگئے ۔ دورنہ جائیے !  صحیح بخاری کےابواب اوران کےتحت احادیث مذکورہ کوبہ نظرغائر پڑھ جائیں ، تو آپ کو صاف طو رپر معلوم ہوگا کہ امام بخاری  ﷫ نے آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ سے سیاست وحکومت ،تمدن ومعاشرت،معاملات اورجنگ وغیرہ کےاحکام وقواعد کس اچھوتے اورعمدہ طریقہ سےمستنبط فرمائے ہیں ، اورایسا ہی دیگ رفقہاء محدثین واہل الرائے نےبھی کوشش فرمائی ہے۔

پس اب بھی علماء دین کایہ فرض ہوناچاہیے کہ جونئی چیزیں اورنئے حوادث کےسامنےآئیں ،ان کےاحکام قرآن وحدیث میں مبینہ اصول وکلیات سےاخذکریں،اور یہ دیگھیں کہ ا ن چیزوں کااستعمال شرعاً درست ہےیانہیں ۔اگر درست ہےتوان کےبرتنے کاصحیح اوردرست طریقہ کیا ہےفوراً  بدعت اورسنت کےتتبع سے یہ قاعدہ کلیہ معلوم ہوتاہے( كما فى كتب الأصول ) اشیاء میں اصل اباحت ہےیعنی : جب تک کس چیز کی عدم طہارت یاعدم اباحت پرکوئی  دلیل نہ ہو،تواس چیز کومباح  اورجائز یاپاک سمجھاجائے گا۔﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَرضِ جَميعًا ... ﴿٢٩﴾...البقرة اور ارشاد ہے﴿ وَسَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ جَميعًا ... ﴿١٣﴾...الجاثية،اور فرمایا گیا :﴿أَلَم تَرَوا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ... ﴿٢٠﴾...لقمان ان آیتوں سے ظاہرہےکہ اللہ پاک نےآسمانون وزمین کی ساری چیزیں انسان  کےلیے بنائی ہیں ۔لہذا انسان ان سے کام لینے اورفائدہ اٹھانے کامستحق ہے، اور ایک ایک چیز کےلیے بالتفصیل  الگ الگ اجازت کی ضرورت نہیں،بلکہ  جب تک کسی خاص چیز کےاستعمال کی ممانعت نہ ملے۔تمام چیزوں کی مباح اور حلال سمجھا جائے گا، اس قاعدہ کی اس حدیث میں بھی بیان فرمایا گیا ہے،’’ الحلال ماأحل الله فى كتابه ، والحرام ماحرم الله فى كتابه ، وماسكت عنه فهو مما عفا عنه ،، (ابوداؤدشريف : كتاب الاطعمة باب مالم يذكرتحريمه (3700)4/175، واللفظ للترمذى ، كتاب اللباس باب ماجاء فى لبس الفراء (1726)4/220، اس  حدیث کوامام البانی  نےضعیف  قرار دیاہے ’’ غاية المرام فى تخريج أحاديث الحلال والحرام ،،ص:15).

ہاں اگر کئی ایسی چیز ہےجوذووجہین ہے،  یعنی : جہت حلال حرام دونوں اس میں موجود ہیں ،یااس کی حلت اورحرمت دونوں  کےدلائل موجود ہیں ۔ اورایک جہت کودوسری جہت  کودوسری جہت پرترجیح ہوگئی تواس کےنزدیک وہ چیز مشتبہ نہیں رہے گی ۔

کسی چیز کےحلال یاحرام ہونےکی اساس اوربنابھی قرآن نےبیان کردی ہے:﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ ... ﴿١٥٧﴾...الأعراف اورحدیث میں ہے :’’ نهى عن الدواء الخبيث ،،  (ابوداؤد كتاب الطب ، باب فى الادوية المكروهة (3870)4/203). پس اگر کوئی چیز ہمارے سامنے آئے جس کی  حرمت کا حکم صراحتاً موجود نہیں ہے ، تو اس اسا س کی روشنی میں دیکھیں گےوہ مستخبت ہےیاطیب !انسان کےلیے مضرت رساں ہےیانفع بخش۔ اگرمضرت رساں ہونا  اوراستخبات ثابت ہو،تو وہ حرام اورممنوع ہوگی ،اور منفعت ثابت ہوتومباح وحلال۔اسی طرح ایسی چیزوں کے طرق استعمال کوبھی دیکھیں گےجوطریق  مفضی الی الفساد ہووہ ممنوع ہوگا اور جوطریق موجب صلاح ہو،  وہ مباح اور جائز ہوگا ۔کسی چیز کےمضر یامفید ہونے کےجواصو ل وضوابط بیان کیے گئے، ان میں ایک اصل یہ بھی ہےکہ جوچیز دینی فرائض کی بجاآوری میں مخل اورمانع ومزاحم ہوہ مضر ،اس لیے  اس سے پرہیز کرنا لازم ہےاورچیز اس  میں ممدومعاون ،وہ مفید ہےاس لیےاس کااستعمال جائز ہے۔

جوچیز کسی ایسی غرض اورمقصد کےلیے بنائی گئی ہو، جسے شریعت نےحرام قراردیاہے،اور اس حرام مقصد کےعلاوہ اس چیز کااورکوئی جائز استعمال بھی نہ ہو ،تووہ چیز مطلقاً ممنوع وحرام ہے،اور جوچیز اچھے اوربُرے مفید اورمضر دونوں طرح کےکاموں میں استعمال کی جاتی ہو، اس کومحض اس لیے نہیں ممنوع قرار دیا جاسکتا کہ فاسق  اورفاجر لوگ اس کواکثر ممنوعات میں استعمال کرتےہیں ۔ایسی صورت میں ہم نفس اس چیز کوحرام وناجائز نہیں قرار دےسکتے، البتہ اس کےمحل اورطریق استعمال کوممنوع قراردیں  گےجس کوفساق وفجار ناجائز مقصد کی خاطر اختیار کرتےہیں ۔

ان امور کومدنظر رکھتےہوئے آلہ مکبر الصوت کے(نماز واذان  اورخطبہ میں )استعمال کاحکم صاف واضح ہوجاتاہےکہ اس کا ان چیزوں میں  برتنا جائز اورمباح ہے۔قرآن وحدیث میں صراحتاً آ پ کو اس کا حکم نہیں مل سکتا کہ عہدرسالت میں یہ چیزنہیں تھی۔نہ صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین کےفتاؤوں میں اس کاحکم مل سکتا ہےکہ وہ یہ چیز موجودہ عہد کی پیدار وار ہے۔پس اس کاحکم اصول وکلیات دین سےاخذ  کیاجائےگا۔میرے نزدیک یہ چیز ’’ هوالذى خلق لكم ما فى الأرض جميعا ،، اور ’’سخرلكم مافى السموات وما فى الأرض  جميعا ،، اور ’’ ماسكت عنه ، فهو عفا عنه ،،سے اخذ کردہ اصل اورکلیہ کےاندرداخل ہونے کی وجہ سے بدعت نہیں کہی جاسکتی ۔مشکوک ومشتبہ وخلاف ورع وتقویٰ اوریہ مستخبت اورمضرت رساں بھی  نہیں ہےنہ اس سے کسی دینی فریضہ  کی بجاآوری میں خلل  اورفساد واقع ہوتاہے، نہ یہ مطلقا لہوولعب  میں داخل ہےنہ اس  کااستعمال تشبہ مذموم میں داخل ہے،اس آلہ کاکام اس کے سوا کچھ نہیں کہ قدرتی طور پرجوآواز متکلم کےمنہ سے نکلتی ہے۔یہ آلہ اس آواز کےلےکراورزیادہ بلند کردیتا ہے اوردورتک پہنچادیتاہے۔

یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس آلہ کےاستعمال کوبدعت نہیں کہاجاسکتا ۔اب رہایہ شبہ کہ جب  مکبروں سےتبلیغ صوت کی ضرورت پوری  ہوجاتی ہےتواس آلہ  کےاستعمال کی ضروت کیاہے ؟

سواس کےمتعلق اولاً : یہ عرض ہےکہہ عیدین جیسے بڑےاجتماع  کےموقع پرمکبروں سےجیسی  کچھ ضرورت پوری ہوتی  ہے،اسے ہرشخص جانتا ہےکہ امام تورکوع سےسراٹھارہا ہوتا ہے،اور پچھلی صفیں ابھی رکوع میں جانے والی ہوتی ہیں ۔یہی حال سجدہ  اورقومہ وغیرہ کاہوتاہے،کسی چیز کانظام درست نہیں ہوتا سخت انتشار اوربدنظمی ہوتی ہے،اور لاؤڈ اسپیکر کےاستعمال سےیہ بدنظمی قطعاً  دور ہوجاتی ہےاوررکوع سجدہ تمام صفوں کاباقاعدہ ایک ساتھ ادا  ہوتاہے۔

ثانیا : مکبروں سے صرف تکبیرا ت انتفالات کاعلم ہوسکتاہے،یہ مکبر امام کی قرات  پہنچا نہیں سکتے ،اور نہ خطبہ میں خطیب کوآواز پہنچاسکتےہیں اس ضرورت کویہ آلہ ہی پوری کرسکتاہے قرات امام سننا گودورکےمقتدیوں پرضروری ولازم نہیں ۔لیکن اگربلاتکلف  امام  کی قرات بعینہ دور کےمقتدیوں تک پہنچ جائے تواس  میں کیا قباحت ہے!!بلکہ یہ تومستحسن چیز ہوگی خطبہ سےمقصود وعظ وتذکیر ہےاگراس مقصد کےحصول  کی غرض سےیہ آلہ استعمال کیا جائے توشرعاً موجب فساد خطبہ کیوں ہوجائے گا؟

رہا یہ شبہ کہ اس آلہ کےاستعمال میں تشبہ اورتقلید مغربیت ہے، تویہ بےجااوربے محل بلکہ لغو ہے، اگرتشبیہ  منہی عنہ کادائرہ اس قدروسیع ہوجائے ،جیساکہ آپ نےسمجھ رکھاہے،توآپ کودین کی بہت چیزیں چھوڑنی پڑیں گی ۔واقعہ یہ ہےکہ جوتشبیہ شرعامکروہ  وممنوع ہے۔....................

محقق نہیں ہے۔غیرمسلموں کےدینی ومذہبی  شعائر  اورقومی امتیازات جوان کےساتھ مخصوص ہوں اوران کودوسری  قوموں سےممتاز کرتےہوں، ان کااختیارکرناتشبہ مکروہ مذموم ہے، اوراس آلہ کااستعمال نہ ان کادینی ومذہبی  شعار ہےاورنہ ان کاقومی وملی امیتاز نشان ۔صرف اتنی سی بات  کہ اس کی ایجاد کافخر ان کوحاصل ہو،اورسب سےپہلے انہوں نے اس کوضرورت کی جگہوں میں استعمال کیا، او ر ان سےدوسری قوموں نے لیا ۔اس سے یہ کیوں کہ ثابت ہواکہ یہ ان کادینی وقومی وملکی امتیازی شعاروشان ہے، اوریہ شبہ کہ اس کااستعمال نماز میں مخل اورمظہر لہوولعب ہےسب سےزیادہ کمزور ہے۔آپ نےوہ آلہ مکبرالصوت دیکھا ہی نہیں ،جس کےسرکانےاورہٹانےکی ضرورت ہوتی ہی نہیں ۔میں نےآل انڈیا ریڈیودہلی کےبراڈکاسٹ  والے کمرےمیں جاکر خود دیکھا   ہےکہ بیچ کمرے میں زمین سےایک فٹ اونچا مائیکرووفون  نصب کیا ہوا ہے،جوپورے کمرے کی آواز کوجذب کرکےنشر گاہ تک پہنچادیتا ہے، اوروہ جذب شدہ آواز ساری دنیا میں نشر ہوجاتی ہے۔پس اگرخطیب  یامؤذن  یاامام کےقریب ایسی قوت والا مائیکرووفون رکھاجائے ،جوکچھ فاصلہ پررہتےہوئے بھی اس کی آواز  جذب کرلے، جس میں اس کےسرکانےیاہٹانے کی ضرورت نہ پڑے تونماز میں کیوں کرمخل ہوگا اورا س کوکس بناء پرلہوولعب میں داخل کیاجائے گا۔؟ عبیداللہ مبارکپوری(الہدی دربھنگہ ج :6ش:2؍10ربیع الآخر1373ھ؍16جنوری 1954ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 207

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ