سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93)وقف شدہ زمین کی آمدنی سے مسجد کی چھت بنوانا

  • 16082
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 745

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں چند بیگھے زمین وقف ہے،اس کی آمدنی کولوگ حسب مرضی جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتےہیں ۔وہاں بعض ایسی  مسجدیں ہیں جن کےلیے چھت اوراورفرض  اورکنواں وغیرہ کی سخت ضرورت ہے۔ کیا اس کی آمدنی سےمسجد کی چھت کی کنواں وغیرہ بنوا سکتے ہیں ؟ اورقرآن شریف ،احادیث وشروحات وتفاسیر عوام کےفائدےکےلیے خرید سکتے ہیں ؟ یا  اس کو مدرسین کی تنخواہ وطلباء کی امداد میں  صرف  کرسکتے ہیں یاراستہ  میں پل کی تعمیر یااس کی مرمت کراسکتے ہیں اورکیا اس زمین کوبیچ کر قیمت سےمسجد تعمیر کی جاسکتی ہے ؟

اسی طرح زکوۃ وفطرہ، عشر آج کل کہاں خرچ کیا جائے ؟ کیوں  کہ مشکل سےاس کےمصارف ثمانیہ  میں سے ایک دوملتےہیں اس مال سےمسجد کی مرمت اورمدرسین وطلباء کی امداد کی  جاسکتی ہےیا نہیں  ؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگراس زمین کےوقف کرنے والے نےبوقت وقف اس زمین مقوفہ کی آمدنی کےمتعلق یہ تصریح اورتعین  کردی تھی  کہ فلاں فلاں جگہ خرچ کی جایا کرے ،تواس کی شرط اورتصریح کی رعایت ضروری اور لازم ہے۔ یعنی : اس کی آمدنی کی معین کردہ جگہوں کے  علاوہ کسی اور جگہ نہ خرچ کی جائے ۔اوراگر تصرف کی تعیین نہیں کی تھی صرف اتنا کہہ دیا تھا کہ اس کونیک کاموں میں خرچ کیا جائے تواس صورت  میں اس کی  آمدنی کومسجد اور کنواں اورپل کی تعمیر اورمدرسین اورطلباء کےوظائف اورعوام کےفائدے کےلیے کتب دینیہ کےخرید پرخرچ کیاجاسکتا ہےبصورت تعیین مصرف واقف  کی شرط اورتصریح کی مخالفت جائز نہیں ،کما فی المعنی .

اس موقوفہ زمین کوفروخت کرناجائز نہیں ۔ إلا إذا تعطلت وجوه منافعها   آنحضرتﷺ  نےوقف عمر کےمتعلق فرمایا ’’ لا یباع  ،، الخ (البخاری : کتاب الشروط،باب الشروط فی الوقف 3/ 185 ومسلم : کتاب الوصیة ، باب الوقف  (1738)3/1255 .)عشرہ وزکوۃ کےمصارف قرآن میں منصوص ہیں جن میں سےاس زمانہ میں بھی ہندوستان کےاندر کئی مصرف پائےجاتے ہیں فقراء  ،مساکین،عاملین  علیھا (بشرطیکہ کسی صحیح نظام کے ماتحت سرداد کےحکم سےجمع اوروصول کرنے والے موجود ہوں )  مؤلفۃ القلوب ، غارمین ،ابن السبیل موجود ہیں۔تعجب  ہےآپ کویہ کھلے ہوئےمصارف نظر نہیں آتے ۔زکوۃ کاجو اوساخ الناس ہے مسجد کی تعمیر اورمرمت پرخرچ کرنا قطعاناجائز ہے،میرے نزدیک مدارس دینیہ اوران کےمدرسین کوفی سبیل اللہ  یا العماملین  کےاندر داخل ہونے میں کلام وتردد ہے۔غریب طلباء پران کی  مسکنت وغربت کی وجہ سے عشر،زکوۃ ،صدقہ فطر،چرم قربانی  کی رقوم خرچ کرنی بلاشبہ جائز ہے۔(مصباح بستی )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 192

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ