سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92)جدید مسجد میں نماز پڑھنا

  • 16081
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 770

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں دومحلے کےلوگ جو سب کےسب اہل حدیث ہیں جمعہ اورنماز پنجگانہ ایک مسجد  میں اداکرتے تھے ، مگر جس محلّہ میں مسجد نہیں تھی وہاں کےرہنے والے مسجد مذکورسے دورہونے کےباعث نماز باجماعت  میں بہت سست تھے، توسب کےمشورہ سےیہ طے ہواکہ اس محلہ میں پنجگانہ  نماز کےلیےایک مسجد بنادی جائے تاکہ اس محلّہ  کےسب لوگ جماعت سےنماز ادا کریں ۔چنانچہ مسجد تیار کرلی گئی جس کوبنے ہوئےدس برس ہوگئے۔ بعدمیں چند اوردنیاوی  امور میں اختلاف  کی وجہ سےاس  نئی مسجد میں جمعہ  بھی ایک سال سےشر وع ہوگیا ہے ۔اس سال رمضان شریف  میں جدید مسجد والوں کی طرف  سےایک شخص نےدونوں  محلوں کےلوگوں کی دعوت کی ۔ توایک مولوی صاحب نےیہ فتویٰ دیاکہ اس  دعوت کاقبول جائز نہیں اور اس جدید مسجد  میں نماز پڑھنی  بھی جائز نہیں کیوں کہ  ان لوگوں نےجمعہ علیحدہ  کرلیا ہے،پس کیا ان مولوی صاحب کا یہ فتویٰ درست ہے ؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس نئی مسجد میں بلاشک وشبہ نماز پڑھنی جائز ہےکیونکہ یہ مسجد ضرار کےحکم میں نہیں ہے۔آنحضرت  ﷺ کےزمانہ میں  مقام قباء میں جومسجد منافقین نےبنائی تھی،اس  میں مسجد بنانے کی نیت تھی ہی نہیں ۔اس لیے کہ ان کےاعتقاد میں  مسجدبنانا تقرب الہی کا موجب نہیں تھا، بخلاف صورت مسئولہ کےکہ یہاں بنانے والوں نےمسجد کی تعمیر کوموجب تقرب سمجھ کربنایا ہےاور اللہ تعالی سے اجروثواب کی امیدرکھتے ہیں ۔ پس اس مسجد کو مسجد ضرار پرقیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے،اور اس میں نماز ناجائز ہونے کافتویٰ درست نہیں ۔البتہ محض دنیاوی امور میں یاا یسے دینی امورمیں اختلاف کی وجہ  سےجس میں شرعا اختلاف کی گنجائش  نہیں ہے جمعہ الگ نہیں کرنا چاہیے ،جولوگ ایسا  کرتے ہیں وہ تفریق بین المومنین کےمرتکب ہیں ۔بنابریں ان کی دعوت نہ قبول کرنے میں کچھ حرج نہیں بلکہ رد کردینا یقینی ہے۔

  (محدث دہلی ج :10ش :1،ربیع الآخر1361ھ؍مئی1942ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 191

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ