سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(430) خالہ نے دو بار دودھ پلایا ہے تو کیا اس کی بیٹی سے شادی جائز ہے؟

  • 16062
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 864

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی خالہ کی بیٹی سے منگنی کی اور جب شادی کا وقت قریب آیا تو خالہ کہنے لگی میں نے تجھے بچپن میں دوبار دودھ پلایا ہے لیکن پیٹ بھر کر نہیں تو کیا اب میں خالہ کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہوں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حالت میں آپ اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کر سکتے ہیں۔اس لیے کہ جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس کی تعداد پانچ ہے اور اس کی دلیل مندرجہ ذیل صحیح حدیث ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ:

"پہلے قرآن میں یہ حکم اتراتھا کہ دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے پھر یہ منسوخ ہو گیا اور یہ (نازل ہوا کہ ) پانچ مرتبہ دودھ پینا حرمت کا سبب ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات ہوئی تو یہ قرآن میں پڑھا جا تا تھا۔"( مسلم 1352۔کتاب الرضاع :باب التحریم بخمس رضعات)

شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی نے کسی عورت کا تین بار دودھ پیا تو کیا اس سے حرمت ثابت ہوجائے گی؟ تو ان کا جواب تھا۔

ان تین رضعات سے حرمت ثابت نہیں ہو گی بلکہ تحریم پانچ بار اس سے بھی زیادہ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے پھر شیخ نے اوپر بیان کی گئی حدیث عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے استدلال کیا۔( فتاوی اسلامیہ 326/3)

شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے۔

ایک بار دودھ پینا اثر انداز نہیں ہو تا پانچ مرتبہ دودھ پینا ضروری ہے اور یہ بھی دودھ چھڑانے کی عدت سے پہلے اور وہ مدت بچے کی عمر دو سال ہونے تک ہے اگر کسی نے ایک یا دو تین یا چار مرتبہ دودھ پی لیا تو اس سے وہ اس عورت کا رضاعی بیٹا نہیں بنے گا بلکہ اس کے لیے پانچ بار دودھ پینا ضروری ہے اور اگر کسی کو یہ شک ہو کہ اس نے چار بار دودھ پیا ہے یا پانچ بار اصل اور صحیح یہ ہے کہ چار بار ہی پیا ہے اس لیے کہ جب بھی عدد میں شک ہو جائے تو کم عدد ہی لیا جائےگا۔

اس بنا پر اگر کوئی عورت یہ کہتی ہے کہ اس نے اس بچے کو دودھ پلایا ہے لیکن پتہ نہیں کہ ایک دو تین چار یا پانچ بار ؟تو ہم کہیں گے کہ بچہ اس کا رضاعی بیٹا نہیں کیونکہ اس کے لیے بلاشبہ پانچ رضعات کا ہو نا ضروری ہے۔( مزید یکھئے الفتاوی الجامعہ للمراء المسلمۃ 768/2) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص518

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ