سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67)’’ بئر بضاعۃ کے پانی کی طہارت

  • 16039
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2794

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ8 ؍ذی قعدۃ 1365ھ

مخزن الأحاديث والقرآن ، مظهر الدلائل والبرهان حضرت المكرم / زاد مجدكم

السلام عليكم ..............................مزاج اقدس !

بندہ عاجز امسال ندو ۃالعلماء میں مصروف تعلیم ہے۔عاجز کےلیے ہرحیثیت سےآپ جیسی  ذی علم وبزرگ ہستیوں کےعلمی  فیض باعث عروج اورخدمت صدشرف تھی،اورجناب والد صاحب    بھی آپ کے گہوارہ فیوض وبرکات سےالگ رہنے کی رائےنہ دیتے ، لیکن احقر کی ناتجربہ کاری پرمحمول فرمائیے  کہ اسے ادبی  ذوق  اورکچھ انگلش  کےشوق نے’’ ندوۃ العلما،،  پہنچا دیا۔

یہاں  درس حدیث ایک محدث شاہ حلیم عطا صاحب دیتے ہیں ، جوندوۃ او ر متعلقات ندوہ میں حفظ حدیث وتحقیق حدیث میں یگانہ  زمان گنے جارہے ہیں ۔ محدث موصو ف ایک دن  درس  دےرہے تھےکہ اثنائے درس میں ’’باب  ان الماء لا ینجسہ شئی،، (الترمذی کتاب الطہارۃ باب ماجاء ان الماء لا ینجسہ  شئی (66) 1؍95 ، ابوداؤد ، کتاب الطہارۃ   ، باب ماجاء فی بئر بضاعۃ (66) 1؍53)آگیا جس میں بئر بضاعہ کی  حدیث  آئی توآپ  نےحسب ذیل کلمات ارشاد کیے:

’’ بئر بضاعۃ کےپانی  کی طہارت کےبارے میں حنفیہ متفق الرائے ہیں ، کیوں کہ امام طحاوی  نےواقدس  کی روایت نقل کی ہے  جس میں  ’’ طریقا الی البساتین ،، ( شرح معانی الآثار  1؍12) آیاہے ، جس سےمعلوم ہوتاہے کہ ماء بضاعۃ ماء جاری  کےحکم میں تھا۔لیکن چوں کہ واقدی کوجمہور محدثین ’’وضاع کذاب ،،کہا ہے، اس لیے یہ حدیث ’’ فتح الباری  ،، سےنقل کی ہے جس کے راوی  سہل بن سعد ساعدی ہیں اورجس  میں ’’ طریقا الی البساتین ،،آیا ہے جبھی سے  مجھے  یہ یقین کامل ہوگیا کہ واقعی بئر  بضاعہ  کاپانی  جاری تھا۔،،

اتنا  فرمانے کےبعد محدث موصوف نےفرمایا کہ : شاہ صاحب  کی تحقیق مذکور کاجواب میں نے اب تک اہل حدیثوں  کےطرف  سےنہیں دیکھاہے، پھرمیری طرف سے مخاطب  ہوئے کہا : اگر تمہیں معلوم ہوتوبتاؤ ورنہ کسی  صاحب سےاس کےمتعلق معلوم کرو!!۔

مولانا  المکرّم  ! ندوۃ میں فرقہ وارانہ  تعصب بالکل  نہیں  ہے، تحقیق مسائل  بآزادی ہوتی ہے۔لہذا بأدب   گز ارش ہےکہ اس کاجواب باصواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔مولوی  صاحب نےدوتین بارتاکید ا ً  فرمایاکہ :  اس کاجواب ضرور معلوم کرو،اس لیے  مجبوراً  آپ کو تکلیف دی ہے۔حدیث کاحوالہ درج ذیل ہے: 

فتح الباری ،کتاب الا ستیذان  ، باب تسلیم الرجال علی النساء  ،راوی سہل بن سعد الساعدی، صفحہ  غالبا 923 ہے۔

ذاکر ابن مولانا عبدالغفور صاحب بسکوہری ذاکراللہ خان ذاکر ،درجہ ہفتم،شبلی ہوسٹل ،ندوۃ العلماء بادشاہ باغ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے لکھاہےکہ ’’ مولانا ممدوح نےمجلس درس میں فرمایا کہ : میں نے ’’ فیض الباری ،، مصنفہ  مولانا انورشاہ صاحب میں دیکھا کہ آپ نے ایک حدیث فتح  الباری سےنقل کی ہے جس کےراوی  سہل بن ساعدی ہیں اور جس میں ’’ طریقا الی البساتین،،آیا ہے ، جبھی سےمجھے یہ یقین کامل ہوگیاہے کہ واقعی بئر بضاعہ کاپانی جاری تھا، پھر آپ نے لکھا ہے:؛’’ مولانا ممدوح نے اس کےبعد فرمایا کہ شاہ صاحب  کی مذکورہ  تحقیق کاجواب ، میں نے اب تک اہل حدیثوں  کی طرف سے نہیں دیکھا ، پھرمیری طرف مخاطب ہوکر فرمایا ہےکہ: اگر تمہیں معلوم ہوتوبتاؤ ، ورنہ کسی صاحب   سے اس کاجواب  ضرور معلوم کرو۔،،

اول : حافظ نے’’ فتح ،، میں برویت  سہل بن سعد،بئر بضاعۃ سےمتعلق ایسی رویت نقل کی ہے جس   میں ’’ طریقا الی البساتین ،، کالفظ آیاہے جس سےمعلوم ہوتاہےکہ بئر بضاعہ  کا پانی ماء جاری کےحکم میں تھا۔

دوم: بنابریں حدیث بئر بضاعہ مسلک اہل حدیث  کےخلاف ہے۔ اورعلماء اہل حدیث کی طرف سے اس حدیث کی کوئی توجیہ اب تک ممدوح کی نظر سےنہیں گزری اوراب  آپ کےتوسط سےاس  کاجواب طلب کررہےہیں۔

بہتر ہوگاکہ اگر میں فیض الباری کی عبارت نقل کردوں ، کیوں کہ اسی پرمولانا موصوف کی تحقیق بھی مبنی ہے۔ صاحب ’’ فیض الباری ،، فرماتے ہیں:

 قوله :’’  على  أربعاء فى مزرعة،، وكانت تلك المزرعة ، تسقى من بئربضاعة ، كما عندالبخارى 2/923 ، فى ’’كتاب تسليم الرجال على النساء   والنساء على الرجال ،، عن سهل قال : كنا نفرح بيوم الجمعة ، قلت :ولم؟  قال: كانت عجوز لنا ترسل إلى  بضاعة  الخ ، وليس  التصريح  به، إلا  فى هذا الموضع ، نبه عليه ياقوت الحموى فى’’  معجم  البلدان  ،، ولم ينبه عليه غيره ، وهذا هومراد الطحاوى،بكونه جاريا  فى البساتين ، أى كانت المزارع تسقى  منها،فلم يكن الماء يستقر فيها، كان الماء ينبع فيها من التحت ، ويخرج من الفوق ، وهو ايضا نوع من الجريان ، والناس لما يدركوا مراده طعنوا عليه،، (فيض البارى 2/ 348)-

صاحب فیض الباری  نے تقریر ترمذی میں کچھ یونہی فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

’’ وادعى   الطحاوى أن الانجاس كانت تخرج  ، وقال : إن بئر بضاعة،كانت  جارية، وأن الآبار جارية ، ولم  يدرك مراد جريانه بعضهم ، فإن مراده بالجريان  إخراج  الماء لا أن يخرج الماء بنفسه ...... (إلى أن قال) وأنا حتج على الجريان  المذكور بمافى البخارى ص: 923 وص : 148 أن بئر بضاعة يسقى منها البساتين،، العرف الشذى ص : 40).

واضح ہوکہ بئربضاعہ سے متعلق ’’ کانت طریقا للماء الی البساتین ،، کےالفاظ ’’ فتح الباری یا’’ صحیح البخاری ،، بلکہ حدیث کی  کسی کتاب   میں نہیں ہیں ،  الا مارواہ الطحاوی فی مشلکہ بسندہ عن الواقدی، بلکہ  میں نے آپ کویقین دلاتا ہوکہ لغت  اورتاریخ  کی کتابوں میں بھی  یہ جملہ  یااس  کےہم معنی  الفاظ نہیں ملیں گے۔

پس الفا ظ  مذکور کےمتعلق یہ دعوی   کرنا کہ وہ ’’ فتح الباری ،، یا ’’ بخاری ،، میں موجودہیں غلط ہے، اسی طرح صاحب ’’ فیض الباری ،، کا ’’صحیح بخاری،، کےحوالے سےاس امرکی تصریح  کرنا’’  وکانت تلک المزرعة تسقی من بئر  بضاعة کما عندالبخاری ص 72؍923 فی باب تسلیم الرجال علی النساء الخ (فیض الباری ) یایہ کہنا کہ ’’  انا احتج علی الجریان المذکور بما فی البخاری ص 923وص 128 : ’’ ان بئر بضاعۃ  یسقی   منھا  لما فی البساتین ،، (العرف الشذی ص : 40)

خلاف واقعہ ہے صحیح بخاری کی کسی روایت میں بھی یہ مضمون  بصراحت  موجود نہیں ہے،اورنہ ہی  حافظ نے فتح الباری ،، میں اس مضمون کی  کوئی روایت پیش کی ہے۔’’ صحیح بخاری ،،  ’’  کتاب الجمعہ ،، میں حدیث سہل بن سعد کےالفاظ یہ ہیں ’’  «كَانَتْ فِينَا امْرَأَةٌ تَجْعَلُ عَلَى أَرْبِعَاءَ فِي مَزْرَعَةٍ لَهَا سِلْقًا، فَكَانَتْ إِذَا كَانَ يَوْمُ جُمُعَةٍ تَنْزِعُ أُصُولَ السِّلْقِ، فَتَجْعَلُهُ فِي قِدْرٍ............. ،، الحديث (فتح الباري (938)2/427)اور ’’ كتاب الاستيذان ،، باب تسليم الرجال على النساء )کے الفاظ   یہ ہیں: ’’ كانت عجوز لنا نرسل إلى بضاعة ، قال ابن سلمة (القعنبى شيخ البخارى ):   نخل بالمدينة ، فتأخذ من أصول السلق .......... الحديث اور حافظ کہتےہیں کہ :’’ وَالْمُرَادُ بِالنَّخْلِ الْبُسْتَانُ وَلِذَلِكَ كَانَ يُؤْتَى مِنْهَا بِالسِّلْقِ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي كِتَابِ الْجُمُعَةِ أَنَّهَا كَانَتْ مَزْرَعَةً لِلْمَرْأَةِ الْمَذْكُورَةِ وَفَسَّرَهَا غَيْرُهُ بِأَنَّهَا دُورُ بَنِي سَاعِدَةَ وَبِهَا بِئْرٌ مَشْهُورَةٌ وَبِهَا مَالٌ مِنْ أَمْوَالِ الْمَدِينَةِ كَذَا قَالَ عِيَاضٌ وَمُرَادُهُ بِالْمَالِ الْبُسْتَانُ وَقَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بَيَانٌ أَنَّ بِئْرَ بُضَاعَةَ بِئْرُ بُسْتَانٍ  ،، (فتح ( 6248)11/33)-

ان دونوں روایتوں میں مع عبارت ’’ فتح ،، کے ، صرف اتنا منصوص ہےکہ بضاعۃ کےنام کامدینہ میں کھجور کاایک باغ تھا، جس میں ترکاری کاشت کرنے کے قابل زمین تھی اور عجوز مذکورہ  اس کی نہروں کےکنارے چقندر کی کاش کرتی تھی اوراس کااقرار ہرشافعی،حنبلی ، مالکی  اوراہل حدیث عالم کوہےکہ ’’بئر بضاعۃ  ،،باغ کاکنواں تھا،ان کےنزدیک توبئر بضاعہ  کابئر بستان  ہونا مسلمات سےہے(درایۃ )۔

عہدنبوی میں مدینہ کوئی اس طرح کاشہر نہیں تھاجیساکہ وہ آج کل ہے یا جس طرح کےگنجان  محلوں کےمجموعوں کےہم عادی ہیں ،  اوس زمانہ میں وہاں عرب ویہود کےقبائل آباد تھے اورہرقبیلہ یامحلّہ  یاگاؤں کو’’ دار،، کہتےتھے دوسرے سےالگ، اورفرلانگ دو فرلانگ یا اس سے بھی زیادہ فاصلے پرواقع تھا، اس طرح  کےگاؤں کاسلسلہ جبل عیر سےجبل ثور تک برابر پھیلا ہواتھا ، اور  انہیں دو پہاڑوں سےمحدود  ہونے  والے میدان میں جو  دس میل لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہےاورجو بالکل ہموار بھی نہیں ہے، مدینہ کی آبادی آج کل کی شہری آبادی کی طرح نہ ہونے ،بلکہ الگ الگ گاؤں کامجموعہ ہونے کی وجہ سے امام ابن حزم نےگاؤں میں جمعہ کےوجوب پراستدلال کیا ہے۔ان گاؤں کی حالت یہ تھی کہ ان میں ایک زیادہ پانی کےکنوئیں ہوتے ،رہائشی مکان پتھر کےبنے ہوئےہوتے، ہرگاؤں مین بر ج کو وضع کی مستحکم عمارتیں ہوتیں جن کوآطام کہاجاتااور یہ     دومنزلہ ہوتے ، ان آطام کےاندر اکثر پانی کنویں ہوتے،ان منتشر اوردوردوربسے ہوئے محلوں کےعلاوہ مختلف افراد وقبائل کےباغ تھے، عموماً ان کے احاطوں کی دیواریں پتھروں  کی بنائی جاتی تھیں ، یہ باغ آبادی کےہرچہار طرف پھیلے  ہوئے تھے ، مدینہ کی موجودہ فصیل پرشمال میں باب الشامی کےپاس بنو ساعدہ رہتےتھے جن کا سقیقہ اب تک موجود ہے،غرض کہ شہر مدینہ سےمحلوں یاگاؤں پرمشتمل تھا اور ان گاؤں کےدرمیان کافی مسافت ہوتی اوریہ درمیانی زمین باغات اورنخلستانوں کی صورت میں ہوتی ،جن کی دیواریں حجری ہوتیں ،ان باغات میں پختہ اوروسیع کنویں اب بھی موجود ہیں ۔

پس ’’ بضاعہ ،، بنو ساعدہ کےمحلہ کانام ہے(معجم البلدان 1؍ 442، وبذل المجہود1؍ 43،وفتح الباری 11؍ 34 ) یا ان کےباغ کا، بہرحال وہاں کنواں تھاجس کاتعلق بنوساعدہ کےنخلستان سےتھا،لیکن بئر بضاعہ کےمتعلق فقط ’’بئر بستان ،، ہونے کی تصریح اورچیز ہےاوران کنویں سےباغ اورکھیت سیراب کیےجانے کی تصریح اورچیزہے،صحیح بخاری (کتاب الاستئذان ، باب تسلیم الرجال علی النساء :7؍131)، سنن ابوداؤد (کتاب الطہارۃ ، باب ماجاء فی بئر بضاعۃ (66)1؍53)اورفتح (11؍34) میں اول کی تصریح ہےاوردوسرے سےسکوت ہے، پھر یہ دعوی کہ’’ بخاری ،،یا’’فتح،،میں بئر بضاعہ سےباغ اورکھیت کاسیراب کیا جانا مذکورہے۔بلاشبہ غلط ہے۔یہ بات ہےکہ باغ کاکنواں باغ کوسیراب کرنے کےلیے ہوتاہے لیکن یہ محض استنباط  ہےنص نہیں ، اورکلام کےمنصوص ہونے میں اس امر مستنبط ( کون ماء البئر فی حکم الماء الجاری لیسقی البستان والمزرعۃ منھا)سے حنفیہ کامدعی ثابت ہونےمیں ہے۔کما سیاتی  فلا تعجل .

صاحب ’’فیض الباری ،، کایہ دعوی کہ بخاری میں بئر بضاعہ کےمتعلق اس امر کی تصریح آجانے پرکہ اس سے کھیتی سیراب کی جاتی تھی یا قوت حموی نےآگاہ کی ہے، اوران کےعلاوہ کسی اور نے متنبہ نہیں کیا ہے، بھی غلط ہے۔(معجم البلدان 1؍ 442)میں صرف اس قدر مذکورہے: بضَاعَةُ:                    بالضم وقد كسره بعضهم، والأول أكثر:

وهي دار بني ساعدة بالمدينة وبئرها معروفة، فيها أفتى النبي، صلى الله عليه وسلم، بأن الماء طهور ما لم يتغير، وبها مال لأهل المدينة من أموالهم، وفي كتاب البخاري تفسير القعنبي: لبضاعة نخل بالمدينة،، انتهى.

ظاہر ہےکہ اس عبارت میں صرف اس قدر مذکورہےکہ  بضاعہ بنو ساعدہ کےگاؤں کانام ہےجہاں ان کامشہورہ کنواں ہےاوراس گاؤں میں ان کاباغ بھی ہے،پھر صحیح بخاری  کےحوالے سے قعنبی کی تفسیر نخل بالمدینۃ نقل کی ہے، اس عبارت میں کہیں یہ مصرح  نہیں ہےکہ اس کنویں سےبنوساعدہ کانخلستان سیراب کیا جاتا تھا، پس حموی کی طرف اس کی نسبت کرنا خطا برخطا ہے،پھر بئر بضاعہ کےبئر نخل یابئر حائط(باغ ) ہونےکی تصریح  یاقوت  حموی (المتوفی 626ھ) سے پہلے امام ابوداؤد (275ھ)اورامام طحاوی ( 3219)اور حافظ اسماعیلی (م: 371ھ ) اورقاضی عیاض (م: 544ھ ) کرچکےہیں ، پس یہ کہنا ’’ نبہ علیہ یاقوت الحموی فی معجم البلدان ھ، ولم ینبہ علیہ غیرہ ،، کیوں کہ کر صحیح ہوسکتاہے ؟

یہاں تک سمع خراشی  فقط اس لیے کی گئئ ہےکہ تاکہ صاحب ’’ فیض الباری امالی علی صحیح البخاری ،، کےمشہود قوت حافظہ کاکرشمہ ظاہر ہوجائے ، اور یہ معلوم ہوسکے کہ مرحوم اپنے حافظہ پراعتماد کرکے کس طرح  استنباط  واستدلال کیا کرتےتھے، اوراستباط کوکس طرح نص  ظاہر کردیا کرتےہین ’’ العرف الشذی،، میں اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں ۔

اب رہا دوم یعنی : یہ دعویٰ کہ بئر بضاعہ کےبئر بستا ن ثابت ہوجانے سےحدیث مذکورمسلک اہل حدیث وشوافع وحنابلہ کے خلاف ہوجاتی ہے۔اور حنفیہ کےموافق  ’’ولا تكون بئر البستان الا لسقى الاشجار ، فيكون ماءها فى حكم الماء الجارى ،، توواضح ہوکہ یہ بحث بہت طویل الذکر ہے ،مختصراً کچھ عرض کیا جاتاہے:

بعض علماء اہل حدیث کےنزدیک محقق ومختار مالکیہ کا مذہب ہے، یعنی : وہ قلیل اورکثیر کےدرمیان فرق نہیں کرتے اورنجاست وطہارت ماء میں فقط تغیر وعدم تغیر وصف بحسب الحس کالحاظ کرتےہیں ، اوراکثر علماء اہل حدیث کی تحقیق اس مسئلہ میں شوافع وحنابلہ کے موافق ہے، حدیث قلتین ان کےنزدیک بھی قابل اعتماد اور غیرمجمل ہے،اورماء قلیل وکثیر کےدرمیان فرق کرنے کی دلیل صریح اما م ابوحنیفہ کےنزدیک اصل مذہب اور اصح قول کےمطابق طہارت ونجاست میں مبتلی بہ کے ظن غالب اوراکبر رائے کااعتبار ہے   فان ظنہ نجساً کان نجساً ، وان طاھر ا ً فطاھراً .

ففى الدر المختار (1/177): ’’ والمعتبر فى مقدارالراكد أكبررأى المتبلى به فيه ، فان غلب على ظنه عدم وصول أى وصول النجاسة الى الجانب الآخر جاز وإلا ، هذا ظاهر الرواية عن الإمام ، وإليه رجع محمد، وهو الأصح كما فى الغاية وغيرهما، وحقق فى البحر أنه المذهب وبه يعمل،،انتهي، واكثر ابن نجيم فى النقول عن العلماء الحنقية فى أن العبرة عندهم لرأى المبتلى به.

غرض یہ حنفیہ  تحدید کےقائل نہیں ہیں اورنہ وہ تغیروعدم تغیر لسبب الحس کالحاظ کرتے ہیں،قال فى ’’ البحرالرائق،،بعدذكر دلائل مذهبه :’’ الحاصل أنه حيث غلب على الظن وجود نجاسة فى الماء ، لا يجوز استعماله لهذا الدلائل، لافرق بين ان يكون قلتين أو اكثر أو اقل ،تغير أولا،وهذا هو مذهب أبى حنيفة ، والتقدير بشئ دون شئ لا يدله من نص ولم يوجد،،انتهى.

اورحنفیہ اگر تغیر وعدم تغیر کالحاظ کرتےبھی ہیں تومبتلی بہ کےظن اورعلم کےاعتبار سےكما  صرح به صاحب الفيض وغيره فليتبه على ذلك.

حدیث بئربضاعۃ بظاہر مالکیہ کی دلیل ہے  كما أقربه صاحب ’’ الكوكب الدرى ،، 1/39وصاحب ’’ بذل المجهود،، 1/43وغيرهما إذ لم يفرق فيه بين القليل والكثير ، وليس فيه ما يدل على التحديد بشئ ولا على إدارة الأمر على أكبر رأى المبتلى به، بل حكم لطهارة الماء الراكد مطلقاً، إلا اذا تغير أحد أوصافه اسى  لیے قائلین تحدید شوافع وغیرہم کوحدیث مذکور کواپنے اپنے مذہب کی رعایت وحمایت میں توجیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

چنانچہ شوافع وحنابلہ نے حدیث قلتین کی روشنی میں اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ قائل نےبئر بضاعہ کےاس پانی کےمتعلق سوال کیا تھا جوانجاس مذکورہ فی الحدیث کوکنویں میں گرنے کےوقت موجود تھا، اورجس سےمذکورہ نجاست کی چیزیں گرتے ہی نکال دی جاتی تھیں، اس کےجواب میں آپ ﷺ نےارشاد فرمایا:’’ الماء لا ینجسہ شئی ،، الماء کا الف لام عہد خارجی ہو کما ھو الظاھر تومطلب یہ ہوگا کہ ماء مسؤلہ عنہ سےجب انجاس مذکورہ فوراً  نکال دی گئیں ،اورپانی میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہواتو پانی حسب سابق پاک رہا، کیوں کہ بئر بضاعہ کا پانی کثیر یعنی دوقلہ سےبہت زیادہ تھا، اورانجاس کےگرنے سےجب کہ وہ فوراً نکال دی جاتی تھیں ،اس کےاوصاف میں تغیر نہیں پیدا ہوتا تھا۔

اوراگر الف لام جنس کاہوتو حدیث قلتین  اس کی مخصص ہوگی اورمعنی یہ ہوگا کہ:جب کسی مقام میں پانی دوقلہ یااس سےزیادہ ہو توجب تک وقوع  نجاست سےاس کےاوصاف  ثلاثہ میں سے کسی ایک وصف میں تغیر نہ ہوجائے ،وہ پانی  پاک ہے،اوربئربضاعہ کی پہلی کیفیت تھی کہ اس  کاپانی بہت کافی تھا،اور ان نجاستوں کےوقوع اورفوراً اخراج کی وجہ سےاس کےاوصاف میں تغیر نہیں ہوتاتھا۔لہذاطاہراورمطہر یاکنویں سےاس پانی کےنکالنے کی ضرورت نہ تھی۔

امام طحاوی نےحدیث مذکور کاجواب دینےکےلیے واقدی کی روایت پراعتماد کیا ،جس میں اس نے اس کےمتعلق یہ دعوی کیا ہے ’’ کانت طریقا للماء الی البساتین ،، یہ الفاظ بہ ظاہر اس امر پہ دلالت کرتے ہیں ۔واقدی  کےنزدیک بئر مذکور سیح یاغدیریانہرتھااوریہ چیز نفس الامر کےخلاف ہے‎، اس لیے شافعیہ نےعموماً اس کےنہر اورعین جاری ہونے کی نفی اورانکار پراورعام کنوؤں کی طرح کنواں ثابت کرنے پرزور دیاہے۔

كما صرح به الحافظ فى الدراية (1/52)والفتح(11/34)، وابوالحسن الماوردى فى كتاب الحاوى من تصنيفة ( معجم البلدان 1/443) و’’ البيهقى ،، فى المعرفة والخطابى وغيرهم  اورشوافع واقدی کےالفاظ سےاس مطلب  کےسمجھنے میں بلاشبہ معذور ہیں ۔بالخصوص  اس وجہ سےکہ طحاوی نے یہ کہہ دیا’’  كانت طريقا إلى البساتين فكان الماء لا يستقرفيها،فكان حكم مائها كحكم ماء الأنهار،  اگر واقدی کامقصود الفاظ مذکورہ سےوہ ہےجو’’طحاوی ،، اورصاحب’’ہدایہ،، وصاحب ’’ فیض الباری،، وصاحب ’’بذل المجہود،،وصاحب ’’ الکوکب الدری،، بیان کرتےہیں ۔تو اس کےلیے صاحب ہدایہ کے یہ الفاظ  مناسب تھے’’ إن ماء بئر بضاعة كا جاريا بين البساتين ،، (1/18) بہرکیف تفصیر فی التعبیر جو شوافع وغیرہم کی غلط فہمی کاسبب بنی دروغ گوواقدی سےہوئی ہےیااس کےشاگرد محمدبن شجاع ثلجی کذاب سے۔واللہ اعلم۔

طحاوی اوردیگر علماء حنفیہ نےجب یہ دیکھا کہ بئر بضاعہ بئر بستان تھا، اورباغ کاکنواں،باغ اوراس کےقابل کاشت زمینوں کوسیراب کرنےکےلیے ہوتاہے ،تویہ یقین کر لیا کہ بئر بضاعہ سےشب وروز ہمیشہ بغیر کسی وقفہ کےپانی نکالے جانے کاسلسلہ قائم رہتا  تھا۔

کنویں کی گہرائی میں چشموں سےنیا پانی آتا رہتا تھااور اوپر سے ’’سوانی ،، اور’’ نواضح ،، کےذریعہ دن رات نکالا دجاتا تھا۔ اس لیے وہ حکم میں عین ونہر جاری کےتھا یااس کی گہرائی ہی میں دوراستے تھے ایک مخرج ماء اوردوسرا مدخل ماء ایک طرف سےپانی نکلتا اوردوسری طرف گھس جاتا۔’’ كما هو مشاهد فى بئر اويس فيجرى الماء فيها،، (بذل المجهود 1/ 44).

 اس صورت میں اگر اس کوصحیح مان لیا جائے بضاعہ بلاشبہ سیح ہوجاتاہے  وعلى هذا فيه  اعتراف من صاحب  ’’ البذل ،، وشيخه صاحب ’’ الكوكب الدرى ،، بكون بئر بضاعة كالسيح أو النهر ، فلا عتب على من رد عليهم ذلك من الشافعيه ، وأبطل كونها عيناً او نهراً.

حنفیہ کہتے ہیں کہ انجاس مذکو رہ کےگرتےہی بئر بضاعہ کاپانی  بسبب تغیر اوصاف کےنجس ہوجاتاتھا۔امام طحاوی لکھتےہیں :’’  ونحن نعلم أن بئر اً لو سقط فيها ماهو أقل من ذلك ، لكان محالا أن لا يتغير ريح مائها وطعمه ، هذا مما يقبل ويعلم ، ، شرح معانى الآثار (1/12) علامہ ابن الترکمانی  الماردینی لکھتے ہیں :’’  وقدمنا فى أوائل هذا الكتاب ، أن الماء الراكد، إذا وقعت فيه تلك الأشياء ، أعنى النتن والحيض والكلاب ، فالأظهر أن الأصاف الثلاثة تتغير ، ويؤيد هذا ما أسنده البهقى  فيما بعد عن أبى داؤد السجستاني من قوله : ورأيت فيها ماء متغير اللون ،،انتهى ( بيهقى مع الجواهر النقى 1/265)اور چوں کہ بئر بضاعہ سےہمیشہ اورہروقت آپ پاشی کےلیے پانی نکالا جاتارہتا تھا ، اس لیے انجاس  مذکورہ اوران کےگرنے کی وجہ سے نجس ہونے والا پانی فوراً  نکال دیا جاتاتھا۔لہذا حدیث  مذکور میں سوال اس نئے اورتازہ پانی کی بابت تھا، جونجس پانی کےاخراج کےبعد نیچے سےنوبنونکلتا تھ،  اورمنشا سوال یہ تھا کنویں کودیواریں نجس پانی سےترہوکرنجس ہوجاتی ہیں ،اور کنویں میں نجس پانی کا نجس علالہ  نئے پانی سےمل کراس کو بھی نجس کردیتا ہے، اس لیے ایسی حالت میں ایسے کنویں کاپانی کبھی پاک ہی نہیں ہونا چاہیے ، چاہے کتنا ہی اس کوصاف کیاجائے ، یہ تھا مبتلی بہ صحابہ کاظن ، اب ان کےجواب میں ارشاد ہوا’’ الماء لا ینجسہ شئی،،  اورچوں کہ لا م میں اصل عہد خارجی ہے اس لیے جس نئے تازہ پانی کی بابت شبہ اورسوال تھا جواب میں اسی کاحکم بیان کیا گیاہےیعنی جب انجاس مذکورہ اوروہ پانی نکال دیاگیا جس میں یہ نجاستیں گری تھیں تومیرے ظن غالب میں داخل بئر سےنکلنے والا نیا پانی پاک ہے اس کےنجس ہوجانے کاشبہ نہیں کرناچاہیے  ،’’ الجريانه فى البساتين إما بتدارك الإستفاء منها،أو لما فى داخلها من كوة يخرج منها الماء ، كما هومشاهد فى بعض الأبار ،، (الكوكت الدرى 1/41).

اب  اس پر تکلیف توجیہ پرتقیدی نظر ڈالیے جس میں کئی دعوےکئےگئے ہیں ۔سب سے پہلے ان کے اس مذہب پرغور کیجیے ،ہمارے نزدیک یہ مذہب نقلاً اورعقلاً  دونوں طرح مخدوش ہے، نہ یہ کتاب وسنت سےثابت ہے۔نہ قیاس وعقل سے،امام محمد نے’’موطا،، میں ، اور ابن انجیم نے’’ البحرالرائق ،، میں ، اور ابن الہمام نے’’ فتح القدیر،، میں ، اور امام طحاوی نے’’ شرح معانی الآثار ،، میں ، اورصاحب ہدایہ  نے ’’ہدایہ،،میں اس مذہب پرجودلا ئل پیش کیے ہیں ۔ان کی تقریر پھرہر ایک کا جواب وقت اورفرصت چاہتا ہے،ان کےجوابات کے لیے’’سعایہ،، اورکتب شوافع اورموالک کی طرف رجوع کیجئے ، مختصر مباحث ’’ تحفۃ الاحوزی ،، میں بھی ملیں گی ۔

عقلاً : یہ مذہب اس لیے مخدوش ہے کہ اگر اس کومعمول بہ بنا لیاجائے ،توجس کنویں یا حوض  میں نجاست گرجائے اختلاف ظنون وآراء کی وجہ سے اس کے پانی کی طہارت ونجاست کےمعاملہ میں اختلاف شدید ہوگا، اس طرح عام مسلمانوں کی طہارت پھرصلٰوۃ  وغیرہ کےمسائل میں ان کانظام درہم برہم ہوجائے گا کما لا یخفی علی من لہ ادنی تأمل .

اس مذہب پراعتماد وعمل نتیجہ بد کا حنفیہ کوبھی احساس ہے، اسی لیے تو ان  کوبھی تحدید(بالعشرة فى العشرة أو التحريك أو غيرهما ) کرنی پڑی ،تاکہ نظام طہارت ونجاست میاہ آباردرست رہے ، لیکن یہ تحدید محض رائے پرمنبی ہے، کتاب اللہ وسنت  اس پر سند نہیں پیش کی جاسکتی ، وقد أقربه بعض الحنفية، فقد قال ’’إن علماء نا لما شاهدوا فى مذهب الإمام الذى قدمنا (إدارة الأمر على راى المبتلى به )  إختلاف أمر العوام ، لبون  بعيد فى آرائهم ، فمن منجس ماء البحر بإلقائه يده النجسة فيه ، ومن مجوز طهارة ماء اكوز  إذا وقعت فيه قطرة من البول ، حدد وافيه حدودا ، ينتظم لها أمرهم ، فمنهم من قدره بعشرفى عشر، ومنهم  من قدر الكثير بقوله : هو الغدير العظيم الذى لا يتحرك احد طرفيه ،، (الكوكب الدرى 1/ 42).

حنفیہ نےاپنی توجیہ میں پہلا دعویٰ یہ کیا ہےکہ بئر بضاعہ عام معمولی کنوؤں کی طرح نہیں تھا ، جس سےمحض اپنے پینے اورجانوروں کوپلانے اوردیگر ضروریات کےلیے پانی نکالا جاتا ہے، بلکہ اس کےعلاوہ باغ اورمزروعہ زمینوں کوسیراب کرنے کےلیے بھی تھا ، اور ہمہ وقت اس سے رہت وغیرہ کےذریعہ پانی نکلتا رہتاتھا یااندر گہرائی میں ایک مدخل ماء اور دوسرا مخرج ماء، پانی ایک سے نکل کردوسرے میں چلا جاتا تھا اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا کرتا تھا، بناءبریں بئر  بضاعہ  نہر جاری یا عین جاری کےحکم میں تھا۔

لیکن جریان ماءبئر بضاعہ کی پہلی صورت  واقعہ اورانسانی مشاہدہ  کےخلاف ہے ، آب پاشی کےبہت کم ایسے کنویں ہوتے ہیں جن سےشب وروز ہمیشہ  بلاناغہ اوربلا توقف ہرموسم میں برابر  پانی نکالا جاتارہے کما لا یخفی علی احل الزرع اور حجاز کےکنوؤں  کے متعلق بالخصوص  بئر بضاعہ کےبارے میں جس کے پانی کی قلت  کی کیفیت امام ابوداؤد نےاپنی سنن میں بیان کی ہے، یہ دعویٰ توبالکل  ناقابل فہم ہے ،  اسی طرح جریان کی  دوسری صورت بھی محض ادعا احتمال آفرینی ہے۔ نیز ابوداؤد کی بیان کردہ کیفیت کےبھی مخالف ہے۔ فلا یعبأ بہ ۔

دوسرا دعویٰ : یہ کیا گیا ہےکہ انجاس مذکورہ کےگرتےہی اس کےاوصاف بد ل جاتےتھے اوروہ نجس ہوجاتا تھا، اس دعویٰ کوبالکل قرین عقل وفہم بتایا گیا ہے کما تقدم فی قول الطحاوی اوراس کےسوا اس پر کوئی حجت نہیں پیش کی گئی ، لیکن ہم جیسے نافہموں اورکم عقلوں کےنزدیک ،تو یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جب اس  میں یہ تمام انجاس بیک وقت گریں اورجلدی نکالی نہ جائیں بلکہ دیرتک کنویں میں ان کوچھوڑ دیاجائے ،لیکن یہ  خیال کہ وہ نجاستوں کونکالتےنہیں رہے ہوں گے ان کےحالات سے ناواقفی کی دلیل ہوگی كما أشار إليه الشيخ الأجل الشاة ولى الله الدهولى فى حجة الله البالغة .

ان انجاس کا ہوا یا بارش کی وجہ سےکنویں میں بیک وقت گرنا ضروری نہیں ہے،متفرق طورپر ’’ نتن ،، اورکبھی ’’لحوم کلاب ،، گرتے رہےہوں گے، راوی نےبیان اورذکرمیں سب  کو جمع کردیا ہے۔

پس معمولی مقدار  میں گرنے والی نجاست کی وجہ سے زیادہ پانی کیوں کراتنی جلد متاثر ہوسکتا ہےجس  کادعویٰ کیا جارہاہے ، اوراگر بالفرض سب انجاس ایک ساتھ گرتےرہےہوں گے، تو تغیر اوصاف بغیر مکث اوراستقرار نجاسات مذکورہ کےنہیں ہوسکتا اورصحابہ  کے متعلق یہ ندگمانی کرنا کہ وہ یونہی ان کوچھوڑ دیتے رہےہوں گے ان کی شان میں بےادبی اورگستاخی ہے وإساء-ة الادب فى شأنهم هوشأن الحنفية ، لا شأننا.

تیسرا دعویٰ : یہ کیاگیا ہےکہ  نجاستوں کےساتھ سارے پانی کونکال دیا جاتاتھا۔اس پربھی کوئی دلیل نہیں قائم کی گئی ،بجز اس کے کہ نجس پانی کوکنویں میں چھوڑ  دینا صحابہ سےبعید  ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک وہ پانی نہیں ہوتا تھا لعدم تغير أوصافه بسبب كثرته كما تقدم  اورصحابہ کواس کی طہارت میں شبہ تھا اس لیے انہوں  نےاس کےمتعلق سوال کیا ۔

چوتھا دعویٰ : یہ کیاگیا ہےکہ جب پہلا پانی نجس ہوگیا تواس کےمتعلق صحابہ کاسوال کرناناممکن ہے۔ سوال ماء جدید طاری کےبارے میں کیاگیا تھا۔

’’ولا يمكن السوال عن الماء النجس القليل حين لم تخرج النجاسة عنه ، إذ من الظاهر أن الماء القليل الذى وقع فيه شئى من النجاسات ، لا يسأل عنه عامى فضلاًَ عن الصحابة ، وكذلك لا يشربه مؤمن فكليف بهذا النبى الاظهر الاكرم ،،الخ (الكوكب الدرى 1/41) كذا قال الطحاوى فى شرح معانى الآثار 1/ 12-13،

اس دعویٰ کی بنا محض اس امر پرہےکہ انجاس مذکورہ کےگرنے سےپانی کےاوصاف فوراً  متغیر ہوجاتےتھے اوروہ فوراً  ناپاک ہوجاتا تھا   و قد قدمنا أنه لا دليل على ذلك ففيه بناء  على الفاسد.

نیز ماء جدید طاری کےمتعلق شبہ کرنا اوراس کےمتعلق آں حضرت ﷺ سےسوال کرنا (اگر اس کوصحیح مان لیا جائے جیساکہ حنفیہ کہتےہیں ) صحابہ کی طرف سوء فہم اور بلادت وغباوت کی نسبت کرنی ہے ولا يجترئ على ذلك إلا الحنفية .

پانچواں دعویٰ: یہ کیا گیا ہےکہ الف اور لام عہدخارجی کےلیے ہونااصل ہے كما صرح به التفازانى فى التويح والشريف الجرجانى فى بعض تصانيفه  اس لیے  جواب میں بئر بضاعہ کےماءجدید کاحکم بیان کیا گیا ہےنہ کہ مطلق پانی کا ، لیکن یہ  مسئلہ مختلف فیہ ہے، پس ہرایک  فریق کاقول  واصل دوسرے پرحجت نہیں ہوسکتا ،اور اگر عہدخارجی  کےلیے ہونا اصل ہوتو بھی حدیث  ہمارے   خلاف  نہیں ہوگی ،کیوں کہ ہمارے نزدیک سوال اس پانی  کےبارے میں تھا جس میں انجاس گر ی تھیں ۔او ر قبل تغیر وصف کے نکال دی گئی تھیں اوراسی پانی کےبارے میں شبہ بھی  کرنا چاہیے تھا كما لا يخفى على من له ادنى  مسكة من العقل ۔ لہذا آپ نےجواب میں اسی پانی کاحکم بھی بیان فرمایا کہ جب نجاست فوراً‎  نکال لی گئیں اورفوری اخراج کی وجہ سے پانی کےاوصاف میں تغیر نہیں پیدا ہوا یعنی وہ پانی کثیر مقدار ( دو قلّہ سےبہت زائد ) میں ہونے کی وجہ سےنجاست سےمتاثر نہیں ہوابلکہ اپنی فطری اورطبعی حالت پرباقی اورقائم رہا توا س کےظاہر رہنے  میں شبہ  نہیں کرنا چاہیے وہ بدستورپاک ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 169

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ