سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66)تماکو کی بیع جائز ہے یا نہیں ؟

  • 16038
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 964

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حقہ پینا جایز ہےیانہیں ؟ ، اورتماکوکی  بیع جائز ہے یا نہیں ؟، اگر کسی شخص کوکوئی خاص تکلیف ہےوہ حقہ پیتا ہےا س کوآرام رہتاہے، اگرحقہ  چھوڑدینا ہےتوا سکوتکلیف مرض  زیادہ ہوجاتی ہے، اس کےلیے جائز ہےیا نہیں ؟

  (سائل محمد شریف ولد چودھری محمد اسماعیل ،ہری پورا مرتسر،پنجاب )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقہ پینا ناجائز ہے۔حقہ پینے سےسرچکرانے لگتا ہے، حواس مختل ہوجاتے ہیں،پینےوالا چکر اوراختلال حواس کی وجہ سے چلنے اورکھڑے ہونے سےعاجزہوجاتا ہے اور اعضاء  میں فتور پیدا ہوجاتاہے غرض یہ کہ یہ سخت مضر اورنقصان دو چیزہے۔

’’  عن أم سلمة قالت: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل مسكرومفتر،، ( مسنداحمدوابوداؤد " كتاب الاشربة باب النهى عن السكر(3676)4/90.)اور آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے:’’ ألا إن كل مسكر حرام ، وكل مفتر وكل  مخدر حرام ، عون المعبود 10/ 139 بحواله كنزالعمال ).

’’ قال : ابن ارسلان (فى شرح السنن : المفتر ...... كُلُّ شَرَابٍ يُورِثُ الْفُتُورَ وَالْخَدَرَ فِي أَطْرَافِ الْأَصَابِعِ وَهُوَ مُقَدِّمَةُ السُّكْرِ وَعَطْفُ الْمُفَتِّرِ عَلَى الْمُسْكِرِ يَدُلُّ عَلَى الْمُغَايَرَةِ بَيْنَ السُّكْرِ وَالتَّفْتِيرِ لِأَنَّ الْعَطْفَ يَقْتَضِي التَّغَايُرَ بَيْنَ الشَّيْئَيْنِ فَيَجُوزُ حَمْلُ الْمُسْكِرِ عَلَى الَّذِي فِيهِ شِدَّةٌ مُطْرِبَةٌ وَهُوَ مُحَرَّمٌ يَجِبُ فِيهِ الْحَدُّ وَيُحْمَلُ الْمُفَتِّرُ عَلَى النَّبَاتِ كَالْحَشِيشِ الَّذِي يَتَعَاطَاهُ السَّفِلَةُ،قَالَ الْخَطَّابِيُّ الْمُفْتِرُ كُلُّ شَرَابٍ يُورِثُ الْفُتُورَ وَالرَّخْوَةَ فِي الْأَعْضَاءِ وَالْخَدَرَ فِي الْأَطْرَافِ وَهُوَ مُقَدِّمَةُ السُّكْرِ وَنَهَى عَنْ شُرْبِهِ لِئَلَّا يَكُونَ ذَرِيعَةً إِلَى السُّكْرِ

وحكى العراقي وبن تَيْمِيَّةَ الْإِجْمَاعَ عَلَى تَحْرِيمِ الْحَشِيشَةِ وَأَنَّ مَنِ استحلها كفر)(عون المعبود10/ 127/1289).

قال الشوكانى  فى الفتح الربانى: ’’ الأصل الذي شهد له القرآن الكريم، والسنة المطهرة هو أن كل ما في الأرض حلال، ولا يحرم شيء من ذلك إلا بدليل خاص كالمسكر، والسم القاتل، وما فيه ضرر عاجل أو آجل كالتراب ونحوه، وما لم يرد فيه دليل خاص فهو حلال استصحابًا للبراءة الأصلية، وتمسكًا بالأدلة العامة كقوله تعالى: {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا،،( البقره : 29).

وقال شيخنا العلامه المباركفورى فى شرح الترمذى 3/40:’’ لا شك فى أن الاصل فى الأشياء الإباحة ، لكن يشترط عدم الإضرار، أما إذا كانت مضرة فى الآجل أو العاجل فكل ثم كلا، وقد أشارالى ذلك  الشوكانى بقوله: ولامن جنس مايضرآجلا او عاجلا ، وأكل التنباك وشرب دخانه مضربلامرية ، وأضرراه عاجلا ، ظاهرغير خفى ، وإن كان لأ حد فيه شك، فليالك منه وزن ربع درهم او سدسه ، ثم لينظر كيف يدور رأسه وتختل حواسه وتتقلب نفسه ، بحث  لا يقدر على أن يفعل شيئا  من أمور الدنيا أو الدين، بل لايستطيع أن يقوم أويمشى ، وما هذا  شأنه فهو مضربلاشك ،قال:وإذا عرفت هذا ظهر لك أن اضراره عاجلا ،هو الدليل على عدم إباحة أكله وشرب دخانه .،، انتهى.

اور جس چیز کاکھانا اورپینا ناجائز اورممنوع ہوا س کا بیچنا  بھی ناجائز ہے۔آں حضرتﷺ  فرماتےہیں : ’’ قاتل الله  اليهود ، إن الله لما حرم شحومهما، جملوه ثم باعوه فأكلو  ا ثمنه،، (بخارى مسلم عند جابر" بخارى كتاب البيوع باب بيع الميتة والاصنام 3/43، مسلم كتاب المساقاة  باب تحريم بيع الخمر والميتة والخنزير  والاصنام (1581)3/127.)اور ارشاد هوا: لعن الله اليهود حرمت عليهم الشحوم ، فباعوها وأكلواأثما ، إن الله إذا حرم على قوم أكل شئي، حرم عليهم ثمنه،، (احمد وابوداؤد عن ابن عباس)

قال الشوكانى : ’’  حديث ابن عباس فيه دليل على إبطال الحيل والوسائل إلى المحرم، وأن كل ماحرمه الله على العباد، فبيعه حرام التحريم ثمنه،، (نيل الاوطار5/237)، اور ناجائز اورممنوع چیز سےعلاج اوردواکرنا بھی ناجائز ہے،آں حضرت ﷺ  فرماتےہیں:’’إن الله  أنزل الداء والدواء ، وجعل لكل داء دواء ، فتداووا ، ولا تتداووا بحرام ،،(ابو داؤد عن ابى الدرداء) مفصل بحث دليل الطالب الى ارجح المطالب ص: 436 مصنفہ  علامہ نواب سید صدیق حسن خاں ﷜﷫‎  میں ملاحظہ کیجئے                                

  کتبہ : عبیداللہ الرحمانی المبارکفوری المدرس بمدرسۃ   دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی

’’ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری صاحب مرعاۃ المفاتیح  تماکو سے متعلق ایک استفتاءے کےجواب میں تحریر فرماتےہیں: زردہ ، تماکو کھانا پینا، اس کامنجن استعمال کرنا یاناک میں اس کا سٹرکنا اورسونگھنا میرےنزدیک جائز نہیں ہے،اور نہ ا س کی تجارت کرنی ٹھیک ہے۔

اولاً: اس لیے کہ اس کااستعمال تما م اطباء کےنزدیک بالاتفاق مضرصحت ہے،اور صحت کوخراب کرنےوالی چیزوں کااستعمال شرعا حرام  ہے۔

ثانیاً :  اس لیے کہ تماکو کھانے اورپینے والے کے منہ میں بدبو پیداہوجاتی ہے اورجس سے اپنی بغل میں کھڑے ہونے والے نمازی کواذیت وتکلیف پہنچتی ہے،نیز مسجد میں ایسی  بدبو دارچیز کےساتھ جاناٹھیک نہیں ہے۔

ثالثاً:  اس کووجہ سےکہ تماکو کااستعمال کھلا ہوا اسراف وتبذیر ہے،اور اسراف اورتبذیر شرعاً حرام ہے۔

رابعاً :  اس لیے کہ تماکو کھانا پینا بدن میں سستی اورسرمیں چکر اورعقل میں فتورنیزخدر(بےحسی ) کااثر پیدا کرتاہے، اورآنحضرت ﷺ نےمسکر کی طرح مفتر سےبھی منع فرمایاہے۔حدیث میں ہے:’’ نھی عن کل مسکر ومفتر،،.

جومولوی صاحبان بڑی سگریٹ اورحقہ پیتے ہیں ، یاپان کےساتھ زردہ تماکوکواستعمال کرکے،عورتوں کی  طرح اپنامنہ اورہونٹ لا ل کرتےہیں ، اور ادھراُدھر  ،یہاں وہا ں پیک تھوک کرزمین لال کرتےہیں اورگندگی پیدا کرتےہیں ۔وہ اپنے فتوے ا ورعمل کےذمہ دار ہیں ۔ ھداھم االلہ تعالیٰ.

 ھذا ماظھرلی والعلم عنداللہ املاہ عبیداللہ الرحمانی  المبارکفوری 26؍ 7؍1407ھ مذاکرہ علمیہ اہل سنت والجماعت

فاضل اڈیٹردام افبالہ نےاخیر شعبان 1334ھ کےپرچہ ’’ اہل حدیث ،، میں ’’ اہل السنہ والجماعۃ ،، کےلقب کی نسبت ایک تاریخی سوال درج فرمایا  ہے، منشا سوال یہ کہ  یہ لقب کب شائع ہوا؟  اورکس کےمقابلہ میں بولا گیا؟۔

الجواب: یہ لقب (اہل سنت والجماعۃ) پہلی صدی کےخاتمہ پراوس جماعت کےلقب مشہورہوا، جوفرقہائے ضالہ مستحدثہ کی تردید اورمخالفت  پرنہایت زورروں سےمستعدتھی، اورچوں کہ یہ جماعت ظاہرسنت کی پابندی اورجماعت صحابہ کی روش کی دلدادہ تھی، اس لیے اس کانام (اہل السنہ والجماعۃ) ہوا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہےکہ فرفہائے ضالہ ، صحابہ کرام ﷢  کےزمانہ ہی می پیداہوچکے تھے، اور فرقہ گمراہ نیاپیدا ........ بصرہ میں  معبد جہنی  نےتقدیر کاانکارکیا اورایک جماعت اس کی تابع ہوگئی۔یحیی بن یعمر وغیرہ نےمدینہ جاکر عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے ان کی خیالات کوپیش کیا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نےنہایت زوروں سے ان کی تردید کی اوربے دین بتایا، اوراستدلا ل  میں حضرت عمر﷜ کی طویل حدیث پیش کی ۔یہ سب واقعات صحیح مسلم کتاب ایمان کی پہلی ہی روایت میں موجود ہیں ۔اس سے معلوم ہوتاہےکہ فرقہائے ضالہ کےمقابلہ میں جوجماعت  سینہ سپرتھی، وہ ظاہر سنت اوروش صحابہ کومضبوط پکڑےہوئے تھی،اورمقابلہ کی وجہ سے ’’ اہل السنہ والجماعۃ ،، مشہورہوئی۔

ہوتا کوئی نہ کوئی لقب اورنام اوس کا مشہور ہوجانا،معبد جہنی اوراس کےاتباع کا تقدیر سےانکار کرنا۔یہ باعث ہوا ان کےقدریہ کہے جانےکا،واصل بن عطاء کاامام حسن بصری کی مجلس سےکنارہ کش ہونا اورامام حسن بصری کا’’ واعتزل عنا، ، کہنا ،یہ باعث ہوا ان کے معتزلہ کہےجانےکا(حالاں کہ معتزلہ اپنے کو’’ اہل العدل والتوحید،،کہتےہیں)رافضیوں کی وجہ تسمیہ ’’ رفض شیخین،، ہےو علی ھذا لقیاس ۔ان سب بدعتی فرقوں کےمقابل جوجماعت تھی،اوس کانام اہل السنہ والجماعۃ تھا۔

علامہ ابن حزم المتوفی 456ھ کتاب الفصل فی الملل  والا ہواءوالنحل (2؍11)میں لکھتے ہیں : فرق المقرين بِملَّة الْإِسْلَام خَمْسَة وهم أهل السّنة والمعتزلة والمرجئة والشيعة والخوارج ثمَّ افْتَرَقت كل فرقة من هَذِه على فرق وَأكْثر افْتِرَاق أهل السّنة فِي الْفتيا ونبذ يسيرَة من الاعتقادات سننبه عَلَيْهَا إِن شَاءَ الله تَعَالَى ثمَّ سَائِر الْفرق الْأَرْبَعَة الَّتِي ذكرنَا فَفِيهَا مَا يُخَالف أهل السّنة الْخلاف الْبعيد وَفِيهِمْ مَا يخالفهم الْخلاف الْقَرِيب،،.

’’ ملت اسلام کےنام لینے والے فرقے پانچ ہیں ، اور وہ : اہل سنت ، معتزلہ ، مرجئہ، شیعہ اورخوارج ہیں۔پھر یہ فرقے خود متفرق ہوئے ، یعنی ان میں بہت سےضمنی فرقے پیداہوئے ۔لیکن اہل سنت کااکثر افتراق فتاویٰ  میں ہوا، اورکچھ تھوڑا سااعتقادات میں۔

پھر بقیہ  چار فرقے جواہل سنت کےمقابل ہیں جن کا ہم سے ذکر کیا ، ان میں بعض تواہل سنت سےاختلاف قریب رکھتےہیں بعض اختلاف بعید،،۔

اور علامہ ابن حزم آگے لکھتےہیں :

’’  وَأهل السّنة الَّذين نذكرهم أهل الْحق وَمن عداهم فَأهل الْبِدْعَة فَإِنَّهُم الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم وكل من سلك نهجهم من خِيَار التَّابِعين رَحْمَة الله عَلَيْهِم ثمَّ أَصْحَاب الحَدِيث وَمن اتبعهم من الْفُقَهَاء جيلاً فجيلاً إِلَى يَوْمنَا هَذَا أَو من اقْتدى بهم من الْعَوام فِي شَرق الأَرْض وغربها رَحْمَة الله عَلَيْهِم،، (الملل والنحل2/113).

’’ جماعت اہل السنہ جن کاہم ذکر کریں گے، وہ تواہل حق ہیں ۔اور ان کےماسوا اہل بدعت ہیں ،پس سنت ہیں اوروہ جماعت صحابہ ہےاور جوان کےطریقہ پرچلے تابعین کےاچھے لوگوں میں سے رحمہم اللہ، پھر اصحاب حدیث ہیں ۔اورجوان کےمتبع ہوئے آج  تک فقہاءسے  ،ایک قوم بعد ایک قوم کے، اور جوعوام ان کی روش پرچلے پچھّم اوریورپ کی زمین ہیں ۔،،

توضیح تلویح مطبوعہ نول کشور ص : 254، میں ہے:

’’أهل السنة والجماعة ، وهم الذين طريقتهم طريقة الرسول ،، یعنی اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جن کاطریقہ رسول اللہ ﷺ کاطریق ہے،، ۔

حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ غنیۃ الطالبین (مطبوعہ لاہور) میں فرماتےہیں:’’فعلى المومن إتباع السنة والجماعة ، فالسنة : ماسنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، والجماعة : مااتفق عليه أصحاب رسول الله ‘‘، یعنی ’’ پس مومن کولازم ہےتابعداری کرناسنت  اورجماعت کی ، پس سنت وہ ہے: جس کومسنون کیا رسول اللہﷺ  نے،اورجماعت وہ ہے: جس پراتفاق ہوا اصحاب رسو ل اللہ کا ‘‘۔

ان عبارتوں سےواضح ہےکہ وہ جماعت جوظاہر سنت رسول اللہ کی پابندتھی اورجماعت صحابہ  کےروشن پر تھی اور رافضیوں ، خارجیوں  معتزلہ ،مرجیہ  اورگمراہ  فرقوں کےخلاف سینہ  سپرتھی وہ ’’ اہل سنت والجماعت ،، کہی گئی۔

اس سے زیادہ واضح شرح عقائدنسفی کی عبارت ہے: ’’ هذا هوكلام القدماء، معظم  خلافياته مع الفرق الاسلامية خصوصا المعتزلة ، لأنهم أول فرقة اسسوا قواعد الخلاف ، لما ورد به ظاهر السنة ، وجرى عليه جماعة الصحابة فى باب العقائد،، یعنی :قرآنی وظاہری سنت سےمخالفین کی تردید کرنا) قدماء  کاکلام ہے۔اوربڑی مخالفت اس فرقہائے  اسلامیہ کےساتھ تھی بالخصوص معتزلہ کےساتھ ، کیوں کہ یہی اول فرقہ ہےجس نے ظاہرسنت  کےخلاف  میں ، اورجماعت صحابہ جس روشن پرچلی تھی، اس کےخلاف میں اپنے قواعد کی تاسیس  عقائد کےباب میں کی‘‘ ۔

حاشیہ میں ہے:’’ لعل وجهه أن سائر الفرق غير المعتزلة وإن خالفوا ماورد به ظواهر السنة، لكنهم  لم يشيروا ولم يؤسسوا أصول الخلاف  كمال التاسيس ،، ۔ اگرچہ ظاھوارسنت کےمخالف تھے، لیکن انہوں نے اصول خلاف  اوراس کےقواعد کی تاسیس  نہ کی تھی،،۔(بخلاف معتزلہ کے) ۔

شرح عقائد نسفی اوراس کےحاشیہ سےہم کوصرف یہ دکھانا مقصود ہےکہ معتزلہ جوپہلی صدی کےاخیر میں پیدا ہوئے اورقدریہ  ، جہمیہ ، مرجیہ، رافضیہ، وغیرہ یہ سب ظواھر سنت کےمخالف تھے۔اگرچہ  ظواھر سنت کےمخالفت میں اپنے اصول وقواعد کی تاسیس  پہلے پہل معتزلہ نےکی ، اوریہ سب فرقے  جماعت  صحابہ کی روش  کےخلاف تھے۔اگرچہ  ظواہر سنت کےمخالف میں اپنے اصول  وقواعد  کی تاسیس  پہلے پہلی معتزلہ  نےکی، اوریہ  سب فرقے  جماعت صحابہ  کی روش کےخلا ف تھے۔پس جوجماعت ظواہر سنت  کی پابنداور جماعت صحابہ  کی روشن  پرتھی ،وہی ’’ اہل سنت والجماعت ،، کہی گئی۔

اصل میں یہ لقب ماخوذہےحدیث :’’ ماانا علیہ واصحابی،،سے جوبرابر ایک فرقہ ظواہر سنت اور روش جماعت صحابہ کےساتھ تمسک کرنے والوں کا چلا آتاہے۔محمدبن سیرین  جو33 ھ میں پیدا ہوئے اور حضرت انس بن مالک ﷜ کےغلام تھے۔جنہوں نے  110 ھ  میں وفات پائی ، ان  کایہ فرمانا ’’لم يكونوا يسئلون عن الإسناد ، فلما وقعت الفتنة،قالوا : سموا لنا رجالكم ، فينظر إلى أهل السنة فيؤخذ حديثهم  ، وينظرإلى أهل البدع، فلا يؤخذ  حديثنهم،، (مقدمه مسلم 1/15)-

’’ پہلے لوگ (حدیث کےلینے میں ) اسناد کاسوال نہیں کرتےتھے۔لیکن جب سے فتنہ واقع ہوگیا توکہنے لگے: اپنے اسناد کے رجال بتاؤ ں، پس دیکھتے کہ اگر وہ رجال اہل سنت ہیں پس حدیث  لیتے ، اوراگر دیکھتے کہ اس کےرجال اہل بدعت  ، روافض ،خوارج،معتزلہ ،مرجیہ ہیں تو ان کی حدیثیں نہ لیتے،،۔

ہمارے اس دعوے پرشہادت بین ہےکہ یہ لقب متمسکین بالسنہ وعاملین بالسنہ  کا، جواہل حق تھے ، جواہل بدعت فرقوں  کےمقابل تھے برابر چلا آتاہے۔اگر اس کے متمیز طریقہ پراطلاق کاپتہ پہلی صد ی کےاخیر تک چلتا ہے،لیکن گمراہ فرقوں کی ابتداپہلی صدی کےوسط سےہوئی، اس لیے ضرور اس جماعت حقہ کالقب بھی ان گمراہ فرقوں  کےمقابل میں اسی ظواہر سنت کی پابندی سے اہل سنت متمیز ہوا۔

شرح عقائد نسفی اورتوضیح وتلویح وغیرہ کی  عبارتوں سے اہل سنت والجماعت کہے جانےکی وجہ بھی معلوم ہوئی کہ ظواہر سنت کی پابندی  اوراس  کی تائید کرنےکی وجہ سے اہل سنت کہے گئے۔اور جماعت صحابہ کی روش اختیار کرنےسے اہل السنہ والجماعۃ لقب ہوا۔علامہ ابن حزم کی عبارت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ جماعت صحابہ اورخیارتابعین اور اہل حدیثوں کی ہے۔اورفقہا ان کی روش پرچلے اورقوم بعدقوم جوعوام ان کےطریقہ  پرچلے آئے سب اہل سنت والجماعت کہےگئے۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہےکہ آیا تقلید شخصی کا رواج جماعت صحابہ کی روش کےموافق ہے؟ ، چوں کہ تقلید شخصی کارواج چوتھی صدی میں ہوا،اور زمانہ خیرالقرون  میں اس کاوجود نہ تھا۔اس لیے کہنے والا کہہ سکتاہےکہ یہ تقلید شخصی  کاوجودبلاشبہ  اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے  اور اس لقب  کےمستحق حقیقت میں اہل حدیث نہ ہیں نہ حضرات مقلدین۔

ہم نےمانا کہ ائمہ اربعہ کےمقلدین  زمانہ مشہورلہا بالخیر  میں نہ تھے،لیکن جب سے ان کاوجود  ہوا  ،اپنےائمہ کی اقتداء میں فرقہ ضالہ کی تردیدمیں مشغول ہیں۔اس لیے یہ اس لقب اہل سنت والجماعت کےمستحق ہیں۔لیکن خود اس تقلید شخصی کاوجوب ماننا اوراس پرجمود اختیار کرنا ، اس لقب سےبعید کردیتاہے۔

افسوس ہےان جامدین علی التقلید  پر، جواس لقب کامستحق اپنے ہی کو یقین کرتےہیں،اروجماعت اہل حدیث  کواہل سنت والجماعت سےخارج یقین کرتےہیں۔ان کی خدمت بخز اس مصرعہ برعکس نام نہنددزنگی کافورکےاورکیاعرض کیا جائے ۔

عبدالسلام مبارکپوری (جرید اہل حدیث امرتسرج: ش :49؍50، 13؍ اکتوبر 1916ء ؍ 15 ذی الحجہ 1334ھ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 162

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ