سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(414) باپ کی سودی رقم سے خرچہ لینا

  • 16025
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 965

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں الحمد اللہ مسلمان ہوں۔میرے والد مالدار ہیں انھوں نے شیخ طنطاوی کا بینک کے فائدے کے حلال ہونے کے بارے میں فتوی سناتواپنی دولت بینک میں رکھ دی اور وہاں سے فائدہ لینا شروع کردیا ۔ میں اس پر مطمئن ہوں کہ یہ فوائد حرام ہیں اور میں نے اپنے والد کو بھی اس پر مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کیا میری والدہ اور بہن بھائیوں پر کوئی گناہ ہے جبکہ میں نے اپنے والد کو قسم بھی دی ہے کہ سود کی رقم سے ہم پر کچھ خرچ نہ کریں؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اور جب ہمارے پاس یہ مال آئے تو ہم کیا کریں؟مجھے اللہ تعالیٰ نے سعود یہ میں کام کرنے کا موقع دیا ہے اور سفر کا خرچہ بھی میرے والد نے دیا تھا مجھے علم نہیں کہ آیا یہ بھی اسی فوائد میں سے تھا یا نہیں ؟تو کیا اب اللہ تعالیٰ مجھے اس کام سے رزق دے رہا ہے وہ حرام ہے یا نہیں؟ مجھے اس کے متعلق ضرور معلومات مہیا کریں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سود حاصل کرنے والے شخص کی اولاد کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں تو پھر والد کے سودی مال سے ان کا کھانا پینا اور کپڑے وغیرہ پہننا کوئی گناہ کاکام نہیں لیکن انہیں چاہیے کہ وہ اپنے والد کو ایسے طریقے سے نصیحت کریں جو فائدہ مند ہواور اگر ان کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش پیدا ہو جائے یا پھر وہ اپنی ضروریات زندگی کے لیے اس مال کے محتاج نہ رہیں تو ان پر اس سود والے مال سے دور رہنا واجب ہے۔

شیخ ابن عثیمین  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں ۔

اگر والد کی کمائی حرام ہو تو اسے نصیحت کرنی واجب ہے اگر استطاعت ہوتو خود اسے نصیحت کریں یا پھر اہل علم کے تعاون سے اسے نصیحت کروائیں اور اسے اس کے حرام ہونے کا یقین دلوائیں یا پھر اپنے دوست احباب کا تعاون حاصل کریں جو اسے مطمئن کر سکیں تاکہ وہ اس حرام کمائی سے بچ جائے ۔اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر تمھارے لیے ضرورت کے مطابق وہ مال کھانا جائز ہے اور اس حالت میں اس کاتم پر کوئی گناہ نہیں مگر یہ صحیح نہیں کہ تم اس مال کو جائز سمجھتے ہوئے اپنی ضرورت سے بھی زیادہ لے لو۔( فتاوی اسلامیہ 452۔3)

اور اگر سود لینے والا والد فوت ہوجائے تو ورثاء پر ضروری ہے کہ وہ اس سودی مال سے چھٹکاراحاصل کریں اور اسے اس کے مالکوں کو واپس کردیں اگر ان کا علم نہ ہو تو اسے کسی بھی عام و خاص مصرف میں لاکر اس سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے سود کا لین دین کرنے والے کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے اور اس نے اپنے پیچھے مال اور اولاد چھوڑی ہے اور اولاد کو والد کے سودی کام کا بھی علم ہے تو کیا ان کے لیے یہ مال بطور وارثت حلال ہے یا نہیں ؟تو شیخ نے جواب دیا۔

بیٹے کو سود کی جس مقدار کا علم ہے وہ اسے نکال دے اور اگر ممکن ہو تو وہ لوگوں کو واپس کر دے اسے صدقہ نہ کرے اور جو باقی وراثت ہے وہ اس پر حرام نہیں لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے متعلق بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر والد نے ایسے سودی معاملات سے وہ مال حاصل کیا ہو جس کی بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں تو پھر ورثاء کے لیےاس سے نفع حاصل کرنا جائز ہے اور اگر مال میں حرام اور حلال دونوں کی ملاوٹ ہو اور اس کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے دوحصے کر لینے چاہئیں (یعنی آدھا حلال کا اور آدھا حرام کا)( مجموع الفتاوی 307/29) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص500

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ