سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52)حدیث :إن الله خلق سبعين أرضين فى كل أرض...کی توضیح

  • 16001
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2206

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فتاویٰ نذیریہ میں بحوالہ  مستدرک حاکم  وابن جریر حدیث مرقوم ہے۔إن الله  خلق سبعين أرضين فى كل أرض  كآدمكم ونوح كنوحكم وإبراهيم كإبراهيمكم وعيسى كعيسكم وبنى كنبيكم(٭ الولید بن عبداللہ بن جمیع الزہری الوکوفی کےبارے میں اقوال  ائمہ جرح وتعدیل اورمزید  تفصیلات کےلیے درج کتابوں کی طرف رجوع کرنا مناسب ہوگا.

1۔ التاريخ الكبير للبخارى ( 2511) 8/ 146-147)

2-التهذيب 11/ 138-130.           

3-تقريب التهذيب ص : 37. 

4- الجرح والتعديل  لابن ابى حاتم الرازى  9/8.

5- معرفة الثقات للعجلى (1934)2/342.

6-لسان الميزان 4/ 337. 

7- ميزان الاعتدال (9362)4/337.

8- الكاشف للذهبى ( 6180) 3/ 210.

9- الثقات لابن حبان 5/ 492.

10- كتاب المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين 3/78/79-11الخلاصة ص : 416.)

اس حدیث  میں مشبہ بہ آدم ونوح وابراہیم وعیسی ونبی آخرالزمان  کےحالات تومعلوم ہیں ،لیکن مشبہ کےحالات وتشریحات معلوم نہیں ہوئے، سات زمین کواللہ تعالیٰ نےپیدا کیااس نےسات  طبق زمینوں کی پیدائش  مراد ہے،یا اس دنیا کےسات  براعظم  وملک مراد ہیں ، جوکتب جغرافیہ  سےمعلوم  ومشہور  ہیں،سات زمین  اورسات آسمانوں کی پیدائش  توقرآن پاک سےثابت ہےلیکن اس حدیث سےمشبہ کےحالات ظاہر نہیں  ہوئے شروح وکتب محققین  کےحوالہ سےواضح کردیجئے  تاکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم صاف صاف ذہن نشین ہوجائے؟

  سائل : تاچیر ہیج مداں عبدالعزیز مدرس ساکن موضع سئی جوگھا  ڈاکخانہ  کٹرہ بازار ضلع گونڈہ، مورخہ  9 ؍ فروری 1945ء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن سے صرف اس قدر ثابت ہےکہ سات آسمانوں کی طرح سات زمینیں بھی ہیں اوراسی قدر حدیث صحیح مرفوع سےبھی ثابت ہے۔ہمارے لیے صرف  اسی قدرپرایمان رکھنا ضروری اورلازم ہےساتوں آسمانوں کی خبرتفصیلات کی طرح ساتوں زمینوں  کی تفصیلی کیفیت  کسی صحیح مرفوع حدیث سےثابت نہیں۔عبداللہ بن عباس کی یہ حدیث موقوف ہےجوغیر مشاہداور غیرمحسوس چیز کےبارےمیں کافی نہیں ہوسکتی پس اس پرایمان لانا کچھ لازمی نہیں  تفصیل اور بسط دلیل الطالب میں دیکھئے،ہاں سات زمینوں سےسات براعظم وملک مراد لینا درست نہیں ہے، کیوں کہ اگریہ مراد ہوتوزمین کوسات آسمان کی طرح بتانے کاکوئی مطلب نہیں ہوگا فافہم وتامل۔

 کتبہ عبیداللہ المبارکفوری  الرحمانی المدرس بمدرسۃ  بمدرسۃ دارالحدیث  الرحمانیہ  بدہلی۔

خواجہ حسن نظامی اورقیامت !

یہ امر ایک حدتک تمام مسلمانوں کےقلب میں جما ہواہےکہ قیامت کادن بہت قریب ہے ،خواہ  وہ اس کے مطابق عمل کریں یانہ کریں ، لیکن بےساختہ  لوگوں کی زبانوں سےنکل جاتاہےکہ یہ زمانہ قریب قیامت  کاہے ،جب کوئی بڑی  بات کوئی بڑا حادثہ ہوتاہے  تواس وقت یہ آواز زیادہ سنائی دیتی ہے۔زلزلہ  قحط یاکسی اعجوبہ کاظہور یاجنگ  عظیم !!  یہ سب اس  کی تازہ کرنے والی چیزیں ہیں جنگ  طرابلس  کےبعد بلقان کی جنگ نےاس کو ذرا زیادہ بڑھایا۔اب عالمگیر جنگ نےتویقین دلایا دیا کہ بس اب عنقریب  وہ باتیں ظہور  میں آنے والی ہیں جوقیامت  قائم ہونے کی پہلی علامت قرردی گئی ہیں۔خواجہ حسن نظامی کانام عنوان مضمون میں اس واسطے دیا گیا کہ جنگ طرابلس  کے وقت سےانہوں نےخواب اورپیشین  گوئیوں کوملا کر کر پانچ یا چھ رسالے اس باب  میں چھاپ ڈالے، چونکہ مسلمانوں کےقلوب بعض اسلامی  ممالک ممالک کےنکل جانے سےایک   گونہ بےچین ہورہے تھے، وہ رسالے ہاتھوں ہاتھ لیے  اورہزاروں کےتعداد میں بکے،رسالہ سنوسی وغیرہ میں زیادہ  ترمداران  کےخواب پرہے،لیکن اسی سلسلہ میں ایک رسالہ کتاب الامر کےنام سےشائع کیاہے،جس میں سب سے زیادہ خرابی جوہےوہ یہ ہےکہ حدیثوں میں قیامت  کےعلامتیں جودخان وغیرہ میں مذکو ر ہیں ،ان  کی ایسی تاویلیں کی ہےکہ الامان ! غالبا اس سے بڑھ کر تاویل القول  بمالایرضی قائلہ کی مثل ملنی مشکل ہے مثلا: علامات  قیامت  سےایک علامت دخانی  بیان کی گئی ہے،اس کی تاویل انہوں نے تماکو سےکی ہے،اوروہ بھی نوشیدنی اورخوردنی دونوں لیکر اس سے عمومیت اورکثرت ثابت کی ہے، یہ ایسی تأولیں ہیں کہ اس سے اہل حدیث  کی خواہ نخواہ ایک طرح کی تشویش پیدا ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ تاویل  ’’ ویلحدون فی آیاتنا،، (ہماری آیتوں اورنشانیوں میں کجی اختیار کرتےہیں) کی مصداق یہ کہتاہےکہ کہ جس بات پرآثار دلالت کرتے ہیں وہ یہ ہےکہ اس امت  کی مدت ایک ہزار سال سےزیادہ سے زیادہ ہوگی ،لیکن وہ زیادتی پانچ سےسوسے آگے نہ پڑھے گی (غرض  کہ 150 میں قیامت قائم ہوگی)، آج ہم دیکھتے ہیں کہ امام سیوطی  کایہ دعوی بھی غلط ہوگیا کیونکہ امام  صاحب نے اپنے زمانہ میں (جو898ھ کازمانہ ہے) ایک ہزاررسنہ میں قیامت آنے کواسی لیے باطل فرمایا تھا کہ طلو ع شمس ازمغرب وخروج دجال  وظہورمہدی ونزول عیسیٰ علیہما السلام وجملہ علامات قیامت کے لیے دوسوبرس کازمانہ چاہیے ، اورخروج دجال  کاوقت اخیر صدی ہے۔پس اس حساب سےابھی دوبرس  زائدہوجاتےہیں اور مجموعہ اوقات ہزار سےبڑھ جاتاہے اورایک ہزار سال میں صرف ایک سومال باقی ہے۔پس یہ کہنا کہ ایک ہزار کےخاتمے پرقیامت ہوگی غلط ہوگیا ۔انتہی۔

لیکن میں عرض کرتاہوں کہ امام سیوطی کی اسی تقریر سے ان کادعویٰ بھی باطل ہوجاتاہے کیونکہ دجال کاخروج اخیر صدی ہے۔اورجملہ علامات کےلیے دوسوبرس کازمانہ چاہیے پس 1400کےخاتمہ میں دجال  کاخروج ہےاور دوسوبرس اس کےبعد چاہیے،پس مجموعہ ایک ہزار چھ سوبرس ہوجاتے ہیں۔

اصل بات یہ ہےکہ جس بات کو اللہ پاک نے اس طرح مخفی رکھاہے، کہ اپنے  رسول تک کونہ بتایا مقربین فرشتوں  کوبھی نہ بتایا ۔تمام مقربین بندوں کے بارےمیں ’’وما یشعرون أیان یبعثون ،، یعنی’’ ان بندوں کویہ خبر بھی نہیں کہ ہم کب اٹھائے جائیں گے،، اورفرمایا :’’ فیم  انت من ذکرھا الی ربک منتھاھا،، اورفرمایا رسول اللہ ﷺنےحضرت  جبرئیل کےجواب میں ’’ مالمسؤل عنها بأعلم من السائل  ،لايعلمها إلاالله تعالى ،، (مشكوة)ان شاءاللہ آئندہ ہم نےاس کومفصل بیان کریں گےاور ایک ایک تاویل کوجوانہوں نے علامات قیامت میں کی ہے دکھائیں گے۔فانتظروہ

تاریخوں کےدیکھنے سےبرابر نہایت واضح ہوجاتاہےکہ زمانہ میں کوئی ہائلہ واقع پیش آیا ہے۔توحدیثوں کی پیشکوئیوں کی طرف لوگوں کی توجہ ہوجاتی ہے۔اسلام میں جب تاتاریوں کافتنہ ہوا۔اس کولوگوں نے یاجوج ماجوج سےتاویل  کی اور یقین ہوگیا کہ بس اب سدسکندری ٹوٹ گئی اور’’فإذا  جاء وعدربى جعله دكاء وكان وعد ربى حقا ،،کازمانہ آگیا۔اسی طرح  جب جب کوئی زلزلہ  شدید یاقحط شیدآیا تواسی طرح کاگمان ہوااور ہونابھی چاہیے ۔کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ ابروبادکاسامان بھگراگھبرائےاٹھتے جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت اس باب میں صریح موجود ہے۔

امام سیوطی کےزمانے میں جو 898 ھ کازمانہ تھا، ایک مفتی صاحب  نےایک موضوع مگرلوگوں میں شہرت  یافتہ حدیث کی بناء پر،یہ فتویٰ دیا کہ 1000میں امام مہدی آخرالزمان صاحب الامر اوردجال کاظہور ہوگا،اورعیسیٰ ﷤ آسمان سے اتریں گے،اورنفخ صور وغیرہ علامات قیامت ظاہر ہوجائیں گے۔

وہ حدیث موضوع یہ ہے: إن النبى صلى الله عليه وسلم لايمكث فى قبره ألف سنة،،یعنی نبی ﷺ اپنی قبر میں ہزار سال تک نہ  رہیں گے،، امام سیوطی پرجب یہ فتویٰ پیش کیاگیا ،توبہت ناخوش ہوئے اورفرمایا کہ : بالکل غلط ہےاور یہ حدیث موضوع ہے۔اوردرحقیقت تھی بھی غلط  لیکن امام صاحب  نےاپنی وسعت نظر اوروسیع معلومات کی بناء پرجوفتویٰ دیاوہ بھی اس زمانہ میں آکرغلط غلط  ہوگیا۔امام صاحب  نے یہ دعویٰ کیا:’’قأقول أولا:الذى  دلت  عليه الآثار ، أن مدة هذه الأمة تزيد على ألف سنة،ولا يبلغ الزيادة خمسة مائة،،یعنی اس دعوی  کوغلط ٹھرانے کےبعد میں پہلی  بات آثار اوراقوال  صحابہ اوراسرائیلی ہےہم کیونکر جان سکتے ہیں۔حقیقت امریہ ہےکہ بہت سی باتوں اورزمانہ بتادیتا ہےکہ یہ غلط ہےجیسے معلوم نہیں کہ منعقد میں کیاسمجھتے ہوں گے۔

پس ہمیں قیامت کاعلم اسی کےحوالہ کرناچاہیے جس نے فرمایا  ہے: ’’ لایجعلھالوقتھا الا ھو،، یعنی ’’قیامت کواپنے وقت پرو ہی ظاہر کرے گا، ، اورفرمایا:’’ واجل مسمی عندہ،، وقت مقرر اس کے پاس ہے ،، یعنی : اس کا علم کسی کونہیں ہے۔معلوم نہیں کہ ابھی دنیا کب تک قائم رہےگی؟ اورکیا کیارنگ بدلے گی اورکون کون سے نواسنج  اپنے  اپنے وقت  پرآکر نواسنجی کریں گے؟اورکون کون صاحب حکومت   اپنی اپنی فرعونیت دکھلائیں گے؟۔

امام صاحب نےاپنے رسالہ کانام توبہت صحیح فرمایا الکشف عن مجازوۃ ھذا الامة الف  لیکن دعوی غلط فرمایا :’’ إن  مدة هذه ، الأمة تزيد على الألف ، ولا يبلغ الزيادة خمسمائة ،، شائد امام صاحب کی یہ غرض ہوکہ آثار خواہ ضعیفہ ہوں  یاکسی قسم کےوہ دلالت کرتےہیں کہ یہ امت پندرہ سوبرس سےآگے نہ بڑھے گی، خود امام صاحب کایہ دعویٰ نہ ہو۔

بہرحال سا ری بحث اورمرورزمانہ سےیہی پتہ چلتا ہے، کہ نص قرآنی اور صحیح حدیثوں کےمقابلے میں آثار ضعیفہ بالکل بیکار ہوجاتےہیں۔صحیح حدیث اورقرآن نےصاف صاف فرمادیاتھاکہ قیامت کاوقت اس امت کی عمر کوئی نہیں جانتا ، لیکن آثارضعیفہ سے معلوم ہواکہ دنیا کی عمر سات ہزاربرس ہے ،اوررسول اللہ ﷺ ساتویں ہزار کےتھوڑاقبل دنیا میں تشریف لائے ،لیکن مرورزمانہ نے اس ضعیف نہیں بلکہ موضوع اثر کوغلط کردیا ، اوریہ قاعدہ  مسلم رہا کہ نقل صحیح عقل صریح کےمخالف  نہیں ۔

  عبدالسلام مبارکپوری   (اہل حدیث امرتسر16جمادی الاول  1333                   2 ؍ اپریل 1915ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ