سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(382) عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح

  • 15979
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 794

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر خاوند اور بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ جدائی رہے تو کیا وہ دوبارہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب خاوند اپنی بیوی کو پہلی یا دوسری طلاق دے اور اس کی عدت ختم ہوجائے تو بیوی اس سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ بائن ہونے کی وجہ سے اجنبی بن جائےگی ہاں اگر وہ دونوں دوبارہ اکھٹے ہونا چاہیں تو انہیں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا اور اس دوسرے نکاح میں بھی  پہلے نکاح کی طرح تمام شروط کا ہونا ضروری ہے۔

لیکن اگر خاوند ا پنی بیوی کو تیسری طلاق دے چکا ہوتو وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے ہاں وہ کسی اور شخص سے شرعی نکاح کرے(یعنی حلالہ نہ کرے) اور وہ ا پنی مرضی سے اسے کبھی طلاق دے دے  تو پھر اگر وہ چاہے تو اپنےپہلے خاوند سے شادی کرسکتی ہے۔اس کی دلیل قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـٰنٍ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا مِمّا ءاتَيتُموهُنَّ شَيـًٔا إِلّا أَن يَخافا أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيهِما فيمَا افتَدَت بِهِ تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٢٩ فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ ... ﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة

"طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکناہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑدیناہے اور تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ کی حدود قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو،اسلیے اگر تمھیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت(رہائی پانے کے لیے) کچھ دے ڈالے اس میں دونوں پر گناہ نہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں خبردار!ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں۔پھر اگر وہ اسے(تیسری مرتبہ) طلاق دے دے تو اب وہ اس کے لیے حلال نہیں جب تک وہ عورت اس کے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرے۔"

سب اہل علم کے ہاں اس آیت میں آخری طلاق سے مراد تیسری طلاق ہے۔اورسنت نبوی میں بھی اسکے دلائل ملتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    بیان کر تی ہیں کہ:

"حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کی بیوی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق(یعنی طلاق بائن) دے دی۔پھر میں نے عبدالرحمان بن زبیر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   سے شادی کرلی۔لیکن ان کے پاس تو(شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے دریافت کیا کہ کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے۔لیکن تو اب اس وقت تک ان سے شادی نہیں کرسکتی جب تک تو عبدالرحمان بن زبیر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لے (یعنی تم ہم بستر نہ ہوجاؤ)۔"( بخاری(2639) کتاب الشھادات باب شھادۃ المختبی مسلم(1433) کتاب النکاح باب لا نحل المطلقۃ ثلاثا لمطلقھا حتیٰ تنکح زوجا غیرہ،ابوداود(2309) کتاب الطلاق باب  المبثوثۃ لا یرجع الیھا زوجھا  حتیٰ تنکح  زوجا ترمذی(1118) کتاب النکاح باب ماجاء فیمن یطلق امراتہ ثلاثا فیتزوجھا آخر ابن ماجہ(1932) کتاب النکاح باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:۔

اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ جس  عورت کو تین طلاقیں ہوچکی ہوں وہ اپنے خاوند کےلیے اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے اور پھر وہ شخص اس سے ہم بستری کرے اورطلاق دے اور یہ عورت اس دوسرے شوہر کی عدت سے فارغ ہوجائے(تو پھر وہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے)( شرح مسلم للنووی(10/3) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص468

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ