سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(378) اگر شوہر بیوی کو مارے پیٹے تو کیا اس کے لیے طلاق کا مطالبہ درست ہے؟

  • 15975
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے خیال میں ایک مسلمان اور صالح شخص  سے شادی کی جو اللہ تعالیٰ کے دین کو بلند کرنے کاکام کرتا تھا۔چار سال قبل جب ہماری منگنی کے دن تھے تو  میں نے اس سے اپنے تعلقات قائم کرنا چاہے اس لیے کہ وہ میرے بارے میں غلط قسم کے کلمات استعمال کرتا تھا جس سے مجھے تکلیف ہوتی اور میرے خیالات کو بھی ٹھیس پہنچتی۔ لیکن اس نے وعدہ کیا کہ شادی کے بعد وہ بہت ہی زیادہ نرم دل ہوجائے گا اور اس وقت اس کی سختی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ کام نہیں کرتا میں نے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے  اس سے شادی کرلی۔

مگر جب ہم نے شادی کرلی تو معاملہ اور بگڑ گیا اور وہ مجھے جسمانی طور پر تکلیف دینا شروع ہوگیا حتیٰ کہ وہ مجھے گھونسے مکے مارنے لگا اور میری گردن بھی دبانے لگا،بالآخر آٹھ ماہ قبل میرے والدین کو بھی اس معاملے کا علم ہوگیا۔اب میں کچھ ہفتوں کے لیے اسے چھوڑ کراپنے والدین کے گھر چلی گئی ہوں میرے والدین کہتے ہیں کہ تم اپنے خاوند کو ایک اور موقع دو اس لیے کہ ممکن ہے تم دوسرے شخص سےشادی کروتو وہ اگر اس سے زیادہ برا نہ ہو تو اسی جیسا ہو۔ان کایہ بھی کہنا ہے کہ جتنی بھی مطلقہ عورتیں ہیں ان کا چکر یہی ہے کہ ان کے دوسرے خاوند پہلے سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔میرا خاوند  ہمارے ہاں آیا اور معذرت کرکے قطعی پختہ عہد کیا کہ وہ اپنے اسلوب میں تبدیلی لائے گا اور ہر معاملے میں باریک بینی سے کام لے گا اور تکلیف دینے سے باز رہے گا۔

ہمارے درمیان یہ معاہدہ  ہواکہ میں اس کے پاس جاؤں گی تاکہ یہ دیکھ  سکوں کہ وہ حقیقتاً بدلا ہے کہ نہیں۔اس کے پاس آنے کے بعد کچھ ہی عرصہ اس کی حالت بدلی وہ میرے ساتھ غلط قسم کی کلام کرتا،میرے احساسات کو مجروح کرتا اور تھوڑی بہت جسمانی اذیت بھی دیتا۔تو کیا اب میرے لیے اس سے طلاق کا مطالبہ جائزہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ان مصائب میں آ پ کا تعاون فرمائے اور آپ کے لیے صبر کرنے والوں جیسا عظیم اجر لکھے بلا شبہ وہ بہت ہی جو دوسخا اور کرم کامالک ہے۔خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے علم ہو کہ وہ مسئول ہے اور اسے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے اس پر ا پنے گھر والوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنا فرض کیا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے:

"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ"

"تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو۔"( صحیح :صحیح الجامع الصغیر(3314)

سوال کرنے والی بہن آپ کے متعلق گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک برے اخلاق کے مالک آدمی کے ساتھ آزمائش میں ڈالاہے جو کچھ سوال میں ذکر کی گیا  ہے اس کی بنا پر آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ طلاق کا مطالبہ کریں(جسے خلع کانام دیاجاتا ہے)اس لیے کہ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاسکتی،ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اسکے بدلے میں کوئی بہتر اور اچھا شوہر عطا فرمادے اور اگر اس کےعلاوہ کوئی اور شخص نہ مل سکے اور آپ فتنہ میں پڑنےکا خدشہ محسوس نہ کریں یاحرام کاری کام نہ پڑیں تو آپ کا شادی کے بغیر ہی اپنے گھر میں باعزت رہنا اس آدمی کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے۔لیکن اگر آپ کویہ خطرہ ہو کہ آپ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں گی یا حرام کام میں پڑھ جائیں گی تو پھر اس شخص کے ساتھ ہی رہتے ہوئے دنیا کی اذیتوں پر صبر کرنا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بہتر ہے۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص464

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ