سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(362) اگر بیوی برے اخلاق کی ہو تو اسے طلاق دینا

  • 15959
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1527

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے سالے کی بیوی اپنی ساس کے ساتھ برے اخلاق اور بےادبی سے پیش آتی ہے اور اس کی ہمیشہ بے عزتی کرتی ہے ساس میری بیوی کو ٹیلی فون کر کے بہو سے تنگ آکرروتی ہے میری ساس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ کئی بار شکویٰ شکایت کے بعد انھوں نے بہوکے گھر والوں سے بات چیت کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور نہ ہی معاملہ سدھر تا نظر آتا ہے اس لیے انھوں نے طلاق کا سوچا ہے۔ تو اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو درست ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل میں طلاق مکروہ ہے لیکن بعض اوقات حالات کچھ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو معاملہ طلاق کے وجوب تک جاپہنچتا ہے تو جو حالات سائل نے ذکر کیے ہیں اس میں ممکن ہے کہ مناسب حل طلاق ہی ہو۔ اس لیے کہ خاوند کے بیوی پر جو حقوق ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اس کے والدین کی عزت و توقیر کرے اور پھر خاص کر ساس جو خاوند کی والدہ بھی ہے کیونکہ آدمی پر والدہ کا حق بیوی کے حق سے مقدم ہے اس لیے بیوی کو خاوند کی والدہ کا احترام و عزت کرکے اس کا مدد گار ثابت ہونا چاہیے۔

اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ضرورت کے وقت طلاق جائز و مباح ہے(یعنی جب اس کی ضرورت پیش آجائےمثلاً بیوی بد اخلاق ہو اس کا رہن سہن برا ہو بلا وجہ تکلیف پہنچاتی ہو وغیرہ وغیرہ تو طلاق دی جاسکتی ہے)( مزید دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ 324/10) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص447

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ