سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(361) کیا ایسی عورت کو طلاق دے دی جائے جو اسلام قبول نہ کرے مگر اولاد چاہتی ہو؟

  • 15958
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 953

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں پیدائشی طور پر ہی مسلمان ہوں لیکن تین برس سے پہلے تک روزے کے علاوہ اور کوئی عبادت نہیں کی میں نے پانچ برس قبل ایک امریکی لڑکی سے شادی کی جو غیر مسلم ہے اور اپنے دین پر عمل پیرا ہے۔ میں اسے شادی سے بھی پانچ برس پہلے کا جانتا ہوں اور میری تمنا تھی کہ یہ لڑکی ہدایت یافتہ ہوکر اسلام قبول کر لے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہم نے اس سلسلہ میں بات چیت کی لیکن اس نے کہا کہ اس کا اسلام قبول کرنا نا ممکن ہے۔

وہ بہت اچھی عورت ہے اور اس کےخاندان والے بھی اچھے ہیں میں جب امریکہ میں رہنے کے لیے گیا تو ان لوگوں نے میری بہت مدد کی۔ وہ چاہتی ہے کہ اولاد جلدی ہواور میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے بچے اسلام کے علاوہ کسی اوردین پربودوباش اختیار کریں گے تو مجھے یہ عذاب محسوس ہوتا ہے حالانکہ وہ اس کے موافق ہے کہ بچے مسلمان ہوں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں۔اس کا کہنا ہے کہ وہ انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے گی۔

وہ دین اسلام کے متعلق کچھ زیادہ تو انہیں جانتی لیکن یہ کہتی ہے کہ جب اسے حمل ہوگا وہ دین اسلام کا مطالعہ کرے گی میں اس معاملہ میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوں اور تین بار اس شادی کو ختم کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔لیکن ہر بار وہ رونا شروع کر دیتی ہے اور میرا دل اس کے متعلق نرم ہو جاتا ہے اور میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اسے ایک اور موقع دوں۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے میرے خیال کے مطابق میں اس سے اولاد پیدا نہیں کرسکتا اور اگر میں اس سے اولاد پیدا نہیں کرتا تو وہ بہت زیادہ ناراض ہوگی اور ہم ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے یا تو اس وقت یا پھر مستقبل میں میری گزارش ہے کہ مجھے کوئی مشورہ دیں میں کیا کروں اور اگر میں اسے طلاق دیتا ہوں تو اس کے مجھ پر کیا حقوق ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ آپ دین اسلام پر پختگی سے قائم رہیں اور دینی شعائر نماز زکوۃ اور روزہ وغیرہ کی حفاظت کریں اور ان کی ادائیگی کرتے رہیں بیوی کے لیے آپ کو ایک نمونہ اور آئیڈل بن کر رہنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے آپ کے ہاتھوں ہدایت نصیب کردے اور اس کی بنا پر آپ بہت بڑی خیر حاصل کرنے کی سعادت حاصل کر لیں

دوسری بات یہ ہے کہ اس عورت سے اولاد پیدا ہونے کی صورت میں ان کے کسی اور دین پرپرورش پانے سے آپ کا خوف یہ بات ظاہر کرتا ہے آپ انہیں دینی تعلیم و تربیت دینے پر حریص ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا یہ معاملہ بہت اچھا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اطمینان کو پورا کرنے کے لیے آپ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعاکیا کریں کہ وہ آپ اور آپ کے دین کی حفاظت فرمائے اسی طرح آپ کو استخارہ بھی کرنا چاہیے کہ آیا آپ کا اس عورت کے ساتھ رہنا اور اس سے اولاد پیدا کرنا بہتر ہے یا اسے چھوڑ کر کسی اور مومنہ عورت سے شادی کرنا۔

آپ یہ بات یقین کے ساتھ جان لیں کہ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے بدلے میں اس سے اچھی اور بہتر چیز عطا فرمادیتے ہیں جیسا کہ یہ بات نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے فرمان سے بھی ثابت ہے آپ کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے اس شدید تعلق(کہ وہ آپ کو بہت چاہتی ہے) سے فائدہ حاصل کریں اور اس کے سامنے یہ بات واضح کردیں کہ آپ کو اپنے دین کی خاطر اسے چھوڑنا بھی پڑا تو آپ اسے چھوڑدیں گے۔ہوسکتا ہے یہ بات اس کے دین میں داخل ہونے کا ذریعہ بن جائے۔

آپ کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ آپ کے لیے اسے اس کی رضا مندی اور دلی اطمینان کے بغیراسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کا زبردستی اسلام میں داخل ہونا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا جیسا کہ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے ذکر کیا ہے۔"( تفسیر ابن کثیر311/1)

تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ آپ اپنی اولاد کو ان کی ماں اور اس کے خاندان کے اثر انداز ہونے سے بچاسکیں اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کر سکیں توپھر اس سے اولاد پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ اپنے دین پر ہی قائم رہے اور ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنا اس کے لیے دین اسلام سیکھنے میں مددگار ثابت ہو جیسا کہ اس نے اس کا وعدہ بھی کیاہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ آپ ضروری ہے کہ آپ کسی اسلامی ملک کی طرف ہجرت کریں جہاں آپ اپنی اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کر سکیں خواہ آپ اس بیوی کے ساتھ رہیں یا کسی اور سے شادی کر لیں اس لیے کہ کفارکےملک میں بلا ضرورت اور بلا مصلحت رہائش اختیار کرنا جائز نہیں الاکہ دعوت و تبلیغ یا کسی ایسے علم کا حصول مقصد ہو جس کی مسلمانوں کو ضرورت بھی ہواور ان کے اپنے ملک میں یہ علم موجود نہ ہو۔لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ اپنے دین کو واضح طور پر بیان کر سکتا ہوتو پھر رہ سکتا ہے بصورت دیگر نہیں کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے۔

"أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين, "

"میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے در میان میں رہتا ہے۔"( صحیح ،صحیح ابو داؤد،ابوداؤد264/5۔کتاب الجہاد باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود)

پانچویں بات یہ ہے کہ طلاق ہوجانے کی صورت میں آپ کی بیوی مہر کی حق دار ہے اگر مہر ابھی تک ادا نہ کیا گیا ہو لیکن دوران عدت رہائش اور نان و نفقہ طلاق کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔لہٰذا جس شخص نے اپنی بیوی کو ایک رجعی طلاق دی تو بیوی کو دوران عدت رہائش اور نان ونفقہ بھی حاصل ہو گا اسی طرح وہ زوجیت باقی رہنے کی وجہ سے اس مدت میں خاوند کی وارث اور خاوند اس کا وارث ہو گا طلاق رجعی والی عورت کو رہائش حاصل  ہونے کی دلیل مندرجہ ذیل فرمان باری تعالیٰ ہے۔

"اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! (اپنی امت سے کہہ دو)جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز)میں انہیں طلاق دواور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سےجو تمھاراپروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو(یعنی رجعی طلاق کے فوراًبعد انہیں اپنے گھروں سے مت نکالو بلکہ عدت تک گھر میں ہی رہنے دو) اور نہ وہ خودنکلیں(یعنی عورتیں عدت کے دوران خود بھی گھروں سے مت نکل جائیں) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے۔"(الطلاق:1)

اگر خاوند عدت ختم ہونے تک بیوی سے رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ نئے نکاح کے بغیر اس کے پاس نہیں آسکتی ۔اور جس نے اپبی بیوی کو طلاق بائن دی تو بیوی کو نہ تو دوران عدت رہائش ملے گی اور نہ ہی نان ونفقہ ہاں اگر حاملہ ہوتو پھر ملے گا طلاق بائن والی عورت کو رہائش اور نان و نفقہ نہ ملنے کی دلیل یہ حدیث ہے۔

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   سے مروی رو ایت میں ہے کہ:

"ابو عمر و بن حفص نے ان کو طلاق بتہ (یعنی تیسری بائنہ طلاق )دی جبکہ وہ یمن میں تھے ابو عمر وکے وکیل (یعنی نمائندے ) نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    کی جانب "جو"بھیجے (اس نے انہیں معمولی سمجھا ) اور اس پر ناراض ہوگئی اس نے کہا اللہ کی قسم !تیرا ہم پر کوئی حق نہیں ہے چنانچہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا تیرا خرچ (اس کے ذمہ) نہیں ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کو حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر میں عدت پوری کرے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے واضح کیا کہ وہ ایسی خاتون ہے جس کے پاس میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا آنا جانا ہے تجھے ابن ام مکتوم رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    کے پاس عدت گزارنی چاہیے وہ نابینا انسان ہے تووہاں کپڑے بھی اتارسکتی ہے۔( مسلم 1480کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثہ لا نفقہ لہا ابو داؤد 2284۔کتاب الطلاق باب فی نفقہ المبتوتہ)

سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"لاَ نَفَقَةَ لَكِ إِلاَّ أَنْ تَكُونِي حَامِلاً"
"تیرے لیے نان و نفقہ نہیں الاکہ تو حاملہ ہوتی تو پھر (ہوتا ) ۔"( صحیح ،صحیح ابو داؤد ،ابو داؤد 2290کتاب الطلاق باب فی نفقہ المبتوتہ ارواء الغلیل 2160صحیح الجامع الصغیر 7550۔مشکاۃ المصابیح 3324) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص443

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ