سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(352) طلاق دینے کے لیے کسی کو دلیل بنانا

  • 15949
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 871

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شریعت اسلامیہ سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق مرد کے حقوق میں سے ایک حق ہے لیکن علماء کی اکثریت نے خاوند کے اپنے اس حق کو اپنی بیوی کو دے دینے میں یعنی اپنے آپ کو طلاق دینے میں اور وکیل بنانے کے مسئلہ میں کئی راہیں اختیار کی ہیں جیسا کہ خاوند کسی شخص کویہ حق دے دےکہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے سکے۔میراسوال یہ ہے کہ آیا ایسا حکم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کے لیے عورت کویا کسی دوسرے کو وکیل بنانے کے سلسلے میں میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے کوئی حدیث نہیں جانتا ۔لیکن علماء نے یہ مسئلہ کتاب و سنت کے ان دلائل سے اخذ کیا ہے جو مالی حقوق اور ان سے ملتے جلتے حقوق کے لیے کسی نیک چلن آدمی کو وکیل  بنانے کے سلسلہ میں ملتے ہیں اور طلاق مرد کےحقوق میں سے ایک حق ہے تو اگر وہ اپنی بیوی کو خود طلاق دینے کے معاملہ میں وکیل بنائے یا کسی دوسرے شخص کو بیوی کی طلاق میں وکیل بنائے جس میں وکیل بنانے کی اسناد درست ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس بارے میں شرعی قاعدہ کے مطابق عمل کیا جا ئے لیکن خاوند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو تین طلاق واقع کرنے کے لیے وکیل بنائے کیونکہ یہ بات خود خاوند کے لیے بھی جائز نہیں لہذا وکیل بنانے کے لیے یہ بات بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوئی۔(شیخ ابن باز )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص434

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ