سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(332) اگرشوہر باری تقسیم کرنے میں دونوں بیویوں کے درمیان عدل نہ کرے

  • 15929
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1432

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیادو بیویوں سے شادی شدہ شخص پر واجب ہے کہ ہر ایک بیوی کے لیے ایام مخصوص کرے؟میرے خاوند نے ابھی تک ہمارے ایام متعین نہیں کیے،وہ میرے پاس صرف اس وقت آتاہے جب دوسری بیوی کے  گھر سے فارغ ہوتاہے اور پھر میرے گھر صرف ہم بستری کے لیے آتاہے۔مجھے یہ ترتیب قبول نہیں اور پھر ہم طلاق تک بھی جاپہنچے ہیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل کرے،جن اُمور میں اس پر واجب ہے کہ وہ برابری اور انصاف سے کام لے ان میں ایام کی تقسیم اور باری بھی شامل ہے۔اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک بیوی کے لیے ایک دن اور رات مقرر کرے اور اس پراس دن اور رات میں اس کے پاس رہنا واجب ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

سنت رسول سے یہ ثابت ہے اور مسلمان علماء بھی اسی پر ہیں کہ آدمی کو اپنی بیویوں کے درمیان دن اور رات کی تعداد کو تقسیم کرکے باری مقرر کرنی چاہیے اور اس میں اسے ان سب کے درمیان عدل سے کام لینا چاہیے۔) الام للشافعی(1/158)

ایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح فرماتے ہیں:

آدمی پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرنے میں عدل کرے مجھے اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں۔) الام للشافعی(5/280)

امام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

اگر مرد کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اور وہ آزاد ہوں تو ان کے درمیان تقسیم میں برابری کرنا واجب ہے ،خواہ وہ بیویاں مسلمان ہوں یاکتابی اور اگر وہ  تقسیم میں برابری نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان شمار ہو گا۔حضرت ابو ہریر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"من كانت له امْرَأَتَانِ فَمَالَ إلى إِحْدَاهُمَا جاء يوم الْقِيَامَةِ وشقه مائل"

"جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک طرف مائل(یعنی زیادہ وقت دے یا زیادہ خرچ کرنے والا) ہوتو وہ روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کاایک پہلو مفلوج ہوگا۔") صحیح :صحیح ابو داود(1867) کتاب النکاح باب القسم بین النساء ابوداود(2133) ترمذی(1141) ابن ماجہ(1969) نسائی(7/3) احمد(2/471) دارمی(2/143) حاکم(2/186) ابن حبان(4207) بیہقی(7/297)

اس میلان سے مراد عملی طور پر ایک بیوی کی طرف زیادہ مائل ہوناہے۔کیونکہ اگرکوئی شخص تقسیم وغیرہ میں عدل کرتا ہے تو میلان قلب کا اس سے مواخذہ  نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ:

﴿وَلَن تَستَطيعوا أَن تَعدِلوا بَينَ النِّساءِ وَلَو حَرَ‌صتُم فَلا تَميلوا كُلَّ المَيلِ فَتَذَر‌وها كَالمُعَلَّقَةِ...﴿١٢٩﴾... سور ةالنساء

"اور تم ہر گز عورتوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو اس لیے بالکل ایک طرف مائل نہ ہوجاؤ کہ دوسری کو معلق کرکے چھوڑدو۔"

اس کامعنی یہ ہے کہ جو کچھ  دلوں میں ہے اس کے بارے میں تو تم ہر گز انصاف نہیں کرسکتے لہذا تم بالکل ایک طرف ہی مائل نہ ہوجانا۔( شرح السنہ للبغوی(9/150)

حافظ  ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ:

بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے اور یہ عدل راتوں کی تقسیم میں سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔( المحلی لابن حزم(9/175)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ:

مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خاوند  پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل کرے۔اگر ایک کے پاس ایک رات یا دو یا تین راتیں بسر کرتا ہے تو دوسری کے  پاس بھی اتنی ہی راتیں بسر کرے اور کسی ایک کو بھی تقسیم میں دوسری پر فضیلت نہ دے۔( مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (32/269)

امام ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:

بیویوں کے درمیان تقسیم میں برابری کرنے کے بارے میں ہمیں کسی اختلافکا علم نہیں اور اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ"ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش اختیار کرو۔"( المغنی لابن قدامۃ(8/138)

اس بنا  پر آپ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوا تقسیم میں  برابری کرے اور بیوی کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاوند کو اس فعل کے بارے میں شرعی حکم بتائے اور اس کے اس فعل پر جو وعید بیا ن ہوئی ہے اچھے انداز میں اور حکمت کے ساتھ اس کے سامنے رکھے۔ہوسکتا ہے وہ اپنے متعلق کچھ سوچے اور اپنے اس فعل سے باز آجائے اور تقسیم میں عدل کرنے لگے۔یہ سب کچھ ان شاء اللہ علیحدگی سے بہتر ثابت ہوگا۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص 415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ